سوال:
ایک معروف تعمیراتی کمپنی جو کہ بلڈنگیں اور سوسائٹیاں بناتی ہے اور آسان قسطوں پر فلیٹس، دکانیں اور پلاٹس فروخت کرتی ہے۔ فرض کریں کسی بھی آئیٹم کی بکنگ اگر مبلغ ڈیڑھ لاکھ میں ہوتی ہے تو کمپنی اس بکنگ کی رسید ڈھائی لاکھ روپے کی دیتی ہے، یعنی اپنے کسٹمرز کو شروع ہی سے ایک لاکھ روپے کا فائدہ دیتی ہے۔
اگر کوئی الاٹی اپنی وہ فائل خود سے مارکیٹ میں بیچنا چاہے تو اپنی مرضی اور قیمت کے حساب سے بیچ سکتا ہے یا اپنی قسطیں ادا کرے، اور اگر کمپنی جو کہ ہر وقت اپنے کسٹمرز سے رابطے میں رہتی ہے کسٹمر اپنی فائل کمپنی کو بیچنے کے لیے دے تو کمپنی مبلغ پچاس ہزار روپے اپنی کمیشن لیتی ہے اور بقایا رقم اپنے کسٹمر کو واپس ادا کردیتی ہے، یعنی ڈھائی کے بجائے دو لاکھ روپے میں, اور اگر کوئی کسٹمر پہلے دن یعنی بکنگ کے وقت کمپنی سے کہے کہ آپ اپنا کمیشن لےلیں اور میری فائل بیچ دیں تو چاہے وہ ایک دن میں بکے یا چار ماہ میں۔ ویسے کمپنی کسٹمر کی فائل بیچنے میں تین سے چار ماہ ٹائم لیتی ہے۔ آپ میری یہ رہنمائی فرمائیں کہ آیا مندرجہ بالا کاروبار سود کے زمرے میں تو نہیں آتا؟جزاکم اللہ خیرا
جواب: پوچھی گئی صورت میں ڈیڑھ لاکھ روپے میں پلاٹ وغیرہ فروخت کرکے رسید پر ڈھائی لاکھ روپے قیمت فروخت لکھنا غلط بیانی اور دیگر لوگوں کو دھوکہ دینا ہے جوکہ شرعاً جائز نہیں ہے، البتہ چونکہ فروخت کی جانے والی چیز حلال ہے، اس لئے اس کے عوض باہمی رضامندی سے قیمت طے کرکے حاصل ہونے والا نفع حرام یا سود نہیں کہلائے گا، بشرطیکہ کمائی حرام ہونے کی کوئی اور غیر شرعی وجہ نہ پائی جانے، تاہم غلط بیانی اور دھوکہ دہی کی وجہ سے اس کا گناہ اپنی جگہ باقی رہے گا، اس لئے کسی قسم کی غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
نیز کمپنی کا موجود اور متعین پلاٹ کی فائل بکوانے کے عوض اپنے کسٹمر سے طے شدہ کمیشن لینا شرعاً درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
التفسير المظهري: (209/1، ط: مکتبة الرشدیة)
ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل كالدعوى الزور والشهادة بالزور او الحلف بعد إنكار الحق او الغصب والنهب والسرقة والخيانة او القمار واجرة المغني ومهر البغي وحلوان الكاهن وعسب التيس والعقود الفاسدة او الرشوة وغير ذلك من الوجوه التى لا يبیحه الشرع.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی