سوال:
محرّم کا مہینہ شروع ہوگیا ہے، جو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہوتا ہے۔ ہم اکثر نئے سال کی مبارک باد اس نیت سے دیتے ہیں کہ نیا سال آپ کے لیے خوشیوں والا ہو، لیکن اسی مہینے میں دو معتبر ہستیوں (حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت امام حسینؓ) کی شہادت ہوئی ہے تو کیا محرم کی مبارک باد دینا جائز ہے؟
جواب: مبارکباد در حقیقت خیر و برکت کی دعا ہے، لہذا نیا اسلامی سال شروع ہونے پر اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو اس نیت سے نئے سال کی مبارکباد دیتا ہے کہ اس کا آنے والا سال خیر و برکت اور عافیت کے ساتھ گزرے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ اسے سنت یا لازم سمجھنا درست نہیں ہے۔
نیز واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مظلومانہ شہادتوں کی یاد سے دل کا غمزدہ ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن چونکہ شرعاً کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے، لہذا ہر سال محرّم الحرام کے مہینوں کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شہادتوں کی بنا پر غم اور دکھ کا مہینہ سمجھنا اور اس میں کسی جائز کام کی مبارکباد دینے کو بھی غلط سمجھنا یا کسی خوشی کے کام مثلاً: شادی بیاہ وغیرہ کو درست نہ سمجھنا، یہ صحیح عقیدہ نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ شہادت وہ عظیم الشان مرتبہ ہے جس کی طلب اور خواہش کا اظہار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خود کیا ہے، لہذا ہر سال شہیدوں کے غم منانے اور اس کو عبادت سمجھنے کا حکم شریعت میں نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 867، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن جابر بن عبد الله؛ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خطب احمرت عيناه، وعلا صوته واشتد غضبه. حتى كأنه منذر جيش، يقول: صبحكم ومساكم. ويقول. "بعثت أنا والساعة كهاتين". ويقرن بين أصبعيها لسبابة والوسطى. ويقول: "أما بعد. فإن خير الحديث كتاب الله. وخير الهدى هدى محمد. وشر الأمور محدثاتها. وكل بدعة ضلالة". ثم يقول: " أنا أولى بكل مؤمن من نفسه من ترك مالا فلأهله. ومن ترك دينا أو ضياعا فإلي وعلي".
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 1195، ط: دار الغرب الإسلامي)
قالت زينب: دخلت علي ام حبيبة زوج النبي صلي الله عليه وسلم حين توفي ابوها ابو سفيان بن حرب فدعت بطيب فيه صفرة خلوق او غيره فدهنت به جارية ثم مست بعاضيها ثم قالت : والله مالي بالطيب من حاجة غير اني سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول : لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تحد علي ميت فوق ثلاثة ايام الا علي زوج اربعة اشهر وعشرا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی