عنوان: چیز اگر مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو اس کے صدقہ کا حکم(10752-No)

سوال: میں نے آیت الکرسی کا ایک فریم آن لائن خریدا تھا جو مجھے پسند نہیں آیا، میں نے واپس کردیا ہے اور مجھے میرے پیسے ایزی پیسہ کے ذریعہ مل گئے، لیکن وہ فریم اب بھی میرے پاس پارسل رکھا ہوا ہے، اس کے مالک نے اس کی واپسی کے لیے اب تک رابطہ نہیں کیا، ان کا رابطہ نمبر بھی ڈیلیٹ ہوگیا ہے اور ایڈریس بھی نہیں معلوم، لیکن ان کو ہمارا ایڈریس بھی معلوم ہے اور ہمارا رابطہ نمبر بھی ان کے پاس ہے، اس بات کو چھ یا سات ماہ ہوچکے ہیں، کیا میں یہ فریم اپنی نوکرانی کو دے سکتی ہوں؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں سودا ختم ہونے کی صورت میں جس طرح ان پر آپ کی رقم واپس کرنا ضروری تھا ‏اور انہوں نے آپ کی رقم واپس کردی، اسی طرح آپ کی بھی ذمہ داری تھی اور آپ پر لازم تھا کہ اسی وقت ان کی ‏مذکورہ امانت انہیں واپس بھجواتے ( جس نمبر سے آپ کا ان سے رابطہ ہوا تھا یا جس نمبر سے انہوں نے آپ کو رقم ‏بھیجی تھی اس پر رابطہ کرکے)، لیکن آپ نے بروقت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، جو گناہ کی بات ہے، البتہ اب بھی جو ممکنہ ذرائع ہیں انہیں بروئے کار لاکر ان سے رابطہ کرلیں ( مثلاً ‏‎:‎اگر یہ فریم کسی اسٹور سے آپ کے پاس آیا ہے تو ‏اس کے نام کی ویب سائٹ تلاش کرکے ان سے رابطہ کرلیں یا جس کوریئر سروس کے ذریعے آپ تک سامان پہنچا ہو، ان کی مدد لے ‏لیں، یا فیصل آباد کے جس علاقہ سے آیا ہے اگر ممکن ہو تو اس علاقے کے لوگوں سے معلومات لیں وغیرہ وغیرہ) ‏تاہم اگر ہر ممکن کوشش کے باوجود کسی بھی طرح ان سے رابطہ نہ ہوسکے اور آپ کو اس بات کا غالب گمان ہوجائے ‏کہ اب ان تک یہ چیز نہیں پہنچائی جاسکتی تو اس صورت میں آپ چاہیں تو کسی مستحق شخص کو مالک کی طرف سے یہ ‏فریم صدقہ کردیں یا اسے بیچ کر اس کی قیمت ان کی طرف سے صدقہ کردیں، البتہ جب بھی وہ واپس ملیں، انہیں اس بات کا اختیار حاصل ہوگا کہ وہ چاہیں تو اس صدقہ کی اجازت دے دیں اور چاہیں تو آپ سے اپنی چیز (اگر موجود ہو) یا اس ‏کی رقم کا مطالبہ کرلیں اور ان کے مطالبہ پر شرعاً آپ ان کی چیز یا اس کی قیمت انہیں دینے کے پابند ہوں گے۔ ‏

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الهدایة: (418/2، ط: دار إحياء التراث العربي)‏
قال: " فإن جاء صاحبها وإلا تصدق بها " إيصالا للحق إلى المستحق وهو ‏واجب بقدر الإمكان وذلك بإيصال عينها عند الظفر بصاحبها وإيصال ‏العوض وهو الثواب على اعتبار إجازة التصدق بها وإن شاء أمسكها رجاء ‏الظفر بصاحبها…‏‎..‎
قال: " فإن جاء صاحبها " يعني بعد ما تصدق بها " فهو بالخيار إن شاء ‏أمضى الصدقة " وله ثواها لأن التصدق وإن حصل بإذن الشرع لم يحصل ‏بإذنه فتيوقف على إجازته والملك يثبت للفقير قبل الإجازة فلا يتوقف على قيام ‏المحل بخلاف بيع الفضولي لثبوته بعد الإجازة فيه " وإن شاء ضمن الملتقط " ‏لأنه سلم ماله إلى غيره بغير إذنه إلا أنه بإباحة من جهة الشرع وهذا لا ينافي ‏الضمان حقا للعبد كما في تناول مال الغير حالة المخمصة وإن شاء ضمن ‏المسكين إذا هلك في يده لأنه قبض ماله بغير إذنه وإن كان قائما أخذه لأنه ‏وجد عين ماله.‏

و فيها أیضاً: (419/2)‏
‏" ولا يتصدق باللقطة على غني " لأن المأمور به هو التصدق لقوله عليه ‏الصلاة والسلام: " فإن لم يأت " يعني صاحبها " فليتصدق به " والصدقة لا ‏تكون على غني فأشبه الصدقة المفروضة " وإن كان الملتقط غنيا لم يجز له أن ‏ينتفع بها.‏

الدر المختار مع رد المحتار: (278/4، ط: دار الفکر)‏
‏(فإن أشهد عليه) بأنه أخذه ليرده على ربه ويكفيه أن يقول من سمعتموه ينشد ‏لقطة فدلوه علي (وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها وفي الجامع
‏ (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار ‏‏(كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد‏‎.‎
‏(قوله: إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها) لم يجعل للتعريف مدة اتباعا ‏للسرخسي فإنه بنى الحكم على غالب الرأي، فيعرف القليل والكثير إلى أن ‏يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه‎.‎

مجلة الأحكام العدلية: (145/1، ط: نور محمد)‏
‏(المادة 768) الأمانة غير مضمونة. يعني على تقدير هلاكها أو ضياعها بدون ‏صنع الأمين وتقصيره فلا يلزم الضمان.‏

و فيها أیضاً: (152/1)‏
‏(المادة 794) إذا طلب الوديعة صاحبها لزم ردها وتسليمها له. ومؤنة الرد ‏والتسليم يعني كلفته تعود على المودع. وإذا طلبها المودع ولم يعطها المستودع ‏وهلكت الوديعة أو ضاعت يضمن.‏

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 229 Jul 21, 2023
cheez / saman agar malik tak pohnchana mumkin na ho too us k sadqa ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.