resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ائیرپورٹ سے ملنے والی سونے کی چین کا حکم (32421-No)

سوال: میرا ایک اچھا دوست دوحہ ایئرپورٹ سے گزر رہا تھا تو اسے وہاں ایک سونے کی چین ملی۔ وقت کی کمی اور فلائٹ مس نہ ہونے کے باعث وہ گم شدہ چیزیں جمع کروانے والا ڈیپارٹمنٹ (Lost and Found department) تلاش نہیں کر سکا، اس لیے اس نے وہ چین اپنے ہینڈ لگیج میں رکھ لی۔
اب وہ اسے واپس کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے یہ چین جان بوجھ کر نہیں لی تھی۔ براہِ کرم یہ بتائیں کہ اسے صحیح طریقے سے واپس کیسے کیا جائے؟ اس میں کوئی بُری نیت نہیں تھی، صرف یہ چاہت ہے کہ یہ چیز اپنے اصل مالک کو واپس مل جائے۔ امید ہے کہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

جواب: ائیرپورٹ سے ملنے والی سونے کی چین لقطہ ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اس کی خوب تشہیر کرکے اصل مالک تک پہنچانے کی کوشش کی جائے، اور اگر ایک مناسب مدت تک تشہیر اور انتظار کے بعد بھی مالک نہ ملے تو پھر مالک کی طرف سے صدقہ کردی جائے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں آپ کے دوست کو چاہیے کہ دوحہ ائیرپورٹ کے آفس (Lost and found department) سے رابطہ کرے، عین ممکن ہے کہ اس چین کے مالک نے پہلے سے وہاں اندراج کروا دیا ہو، اور اگر پہلے سے اس چین کے بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہ ہو تو اس صورت میں بھی چین ان کے پاس جمع کروائی جاسکتی ہے بشرطیکہ آفس کے پاس تشہیر اور مالک تک پہنچانے کا انتظام ہو، اس صورت میں اگر آپ کے دوست کے لیے خود وہاں جانا ممکن نہ ہو تو کسی دوسرے قابل اعتماد شخص یا ڈاک وغیرہ کے واسطے سے بھی چین ان تک پہنچائی جاسکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن الدار قطنی: (کتاب الرضاع، 322/5، ط: موسسة الرسالة)
عن أبي هریرة أن رسول الله ﷺ سئل عن اللقطة، فقال: لاتحل اللقطة من التقط شیئاً فلیعرفه سنة، فإن جاء صاحبها فلیرد ها إلیه و إن لم یأت صاحبها فلیتصدق بها، وَإِنْ جَاءَهُ فَلْيُخَيِّرْهُ بَيْنَ الْآخَرِ وَبَيْنَ الَّذِي لَهُ‘‘.

الهندية: (290/2، ط: دار الفكر)
ثم ما يجده الرجل نوعان: نوع يعلم أن صاحبه لا يطلبه كالنوى في مواضع متفرقة وقشور الرمان في مواضع متفرقة، وفي هذا الوجه له أن يأخذها وينتفع بها إلا أن صاحبها إذا وجدها في يده بعد ما جمعها فله أن يأخذها ولا تصير ملكا للآخذ، هكذا ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي - رحمهما الله تعالى - في شرح كتاب اللقطة، وهكذا ذكر القدوري في شرحه. ونوع آخر يعلم أن صاحبه يطلبه كالذهب والفضة وسائر العروض وأشباهها وفي هذا الوجه له أن يأخذها ويحفظها ويعرفها حتى يوصلها إلى صاحبها وقشور الرمان والنوى إذا كانت مجتمعة فهي من النوع الثاني وفي غصب النوازل إذا وجد جوزة ثم أخرى حتى بلغت عشرا وصار لها قيمة فإن وجدها في موضع واحد فهي من النوع الثاني بلا خلاف وإن وجدها في مواضع متفرقة فقد اختلف المشايخ فيه، قال الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى -: والمختار أنها من الثاني.

الدر المختار: (کتاب اللقطة، 280/4، ط: دار الفکر)
(فإن أشهد عليه) بأنه أخذه ليرده على ربه ويكفيه أن يقول من سمعتموه ينشد لقطة فدلوه علي (وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها وفي الجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار (كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه۔۔۔أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي، وأقره المصنف وغيره (ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة (فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه، إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال) تتارخانية. وفي القنية: لو رجى وجود المالك وجب الإيصاء.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals