سوال:
مفتی صاحب! میں نے اپنی بہن کے پاس اپنا سونا رکھوایا تھا اور وہ ان کے گھر سے چوری ہوگیا تو کیا میں اس سونے کی رقم اپنی بہن سے مانگ سکتا ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر آپ نے اپنی بہن کے پاس سونا بطور امانت رکھوایا تھا اور انہوں نے اسے پوری حفاظت سے رکھا، مگر اس کے باوجود ان کی غفلت اور کوتاہی کے بغیر سونا چوری ہوگیا تو آپ کی بہن پر اس سونے کا تاوان نہیں آئے گا، البتہ اگر انہوں نے سونے کی حفاظت میں غفلت اور کوتاہی سے کام لیا، یعنی جیسے عام طور پر جس قدر سونے کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے، ویسے نہ رکھا تو ایسی صورت میں سونا چوری ہونے پر ان کے ذمہ سونے کا تاوان آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (211/6، ط: دار الكتب العلمية)
وأما بيان حال الوديعة فحالها أنها في يد المودع أمانة؛ لأن المودع مؤتمن، فكانت الوديعة أمانة في يده...ومنها: أنه إذا ضاعت في يد المودع بغير صنعه، لا يضمن، لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «ليس على المستعير غير المغل الضمان ولا على المستودع غير المغل الضمان» ؛ ولأن يده يد المالك، فالهلاك في يده كالهلاك في يد المالك، وكذلك إذا دخلها نقص؛ لأن النقصان هلاك بعض الوديعة، وهلاك الكل لا يوجب الضمان، فهلاك البعض أولى.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی