سوال:
ایک مسجد کے ساتھ امام صاحب کی رہائش کے لیے کوئی کمرہ بنایا گیا تھا، کیا مسجد کے نقشہ کو تبدیل کرنے کی غرض سے مسجد کی تعمیر نو کے وقت کمرہ مسجد کے ملحق ہی دوسری طرف منتقل کیا جا سکتا ہے، جبکہ مسجد کی جگہ اپنی اصل مختص جگہ پر ہی تعمیر ہو رہی ہے؟
امام صاحب کی رہائش کے لیے اس مسجد کے ساتھ مشرق کی جانب ایک چھوٹا سا کمرہ تعمیر کیا گیا تھا، جس میں کبھی کوئی رہائش پزیر نہیں ہوا تھا،کیونکہ کبھی کوئی امام مقرر نہیں ہوا تھا۔ تقریباً دس سال پہلے نئے مکین نے جب رقبہ اور گھر خرید لیے تو اس وقت اس کمرے کو ایک رہائشی کباڑ، اسٹور اور کتیابمع بچے پالنے کے لیے استعمال کر رہا تھا جو کہ نئے مکین نے خالی کروایا تھا۔اب نیا مکین اپنے خریدی زمین سے کچھ زمین اضافی طور پر شامل کر کے مسجد کی توسیع اور تعمیر نو کرنا چاہ رہا ہے اور اس کمرے کی زمین کو مسجد کے شمال کی جانب اپنے ملکیتی رقبے میں جگہ دے کر منتقل کرنا چاہ رہا ہے۔ نئی جگہ جہاں اس کمرے کی زمین منتقل کی جا رہی ہے، وہ نئے مکین کی خرید کردہ ملکیتی رقبہ ہے، مسجد کی جگہ نہیں ہے۔
تنقیح:
محترم اس بات کی وضاحت کردیں کہ یہ کمرہ پہلے سے مسجد کی حدود میں واقع ہے یا کسی کی ذاتی ملکیت میں ہے؟اس بات کی وضاحت کے بعد آپ سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
یہ کمرہ 130 سال پہلے مسجد کے ساتھ متصل حجرہ کے طور پر بنایا گیا تھا جو کہ کسی کی ملکیت نہیں تھا، بلکہ مسجد بنانے والے کی طرف سے امام مسجد یا مسافروں کی رہائش کے لیے وقف تھا۔ لیکن یہ کمرہ مسجد نہیں تھا۔
جواب: واضح رہے کہ جو جگہ ایک مرتبہ وقف ہوجائے تو وہ واقف کی ملکیت سے نکل کر ہمیشہ کے لیے اللہ تعالٰی کی ملک میں داخل ہوجاتی ہے، اس کو تبدیل کرنا یا بیچنا جائز نہیں ہوتا۔
صورت مذکورہ میں یہ کمرہ اب ہمیشہ کے لیے وقف ہے، لہذا واقف کی منشاء کے مطابق اس کمرے کو اسی جگہ امام یا مسافروں کی رہائش کے لیے استعمال کیا جائے، نئے مکین کے لیے اپنی زمین کے کچھ حصے کو مسجد میں شامل کرکے اس کے بدلے اس کمرے کی زمین کو اپنی ملکیتی رقبہ میں شامل کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (352/2، ط: دار الفكر بيروت)
وأما حكمه فعندهما زوال العين عن ملكه إلى الله تعالى وعند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - حكمه صيرورة العين محبوسة على ملكه بحيث لا تقبل النقل عن ملك إلى ملك والتصدق بالغلة المعدومة متى صح الوقف بأن قال: جعلت أرضي هذه صدقة موقوفة مؤبدة أو أوصيت بها بعد موتي فإنه يصح حتى لا يملك بيعه ولا يورث عنه لكن ينظر إن خرج من الثلث والوقف فيه بقدر الثلث كذا في محيط السرخسي.
الدر المختار: (352/4 ، ط: سعيد)
(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن) فبطل شرط واقف الكتب، الرهن شرط كما في التدبير.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی