عنوان: مضارب کے خیانت کی صورت میں نقصان کا حکم (10770-No)

سوال: میرا ایک بہت مخلص دوست تھا، اُس نے مجھ سے کہا کہ زبیر آپ مجھے ایک کروڑ یا پچاس لاکھ کی رقم دیں، میں آپ کو مال لےکردونگا جس کا نفع نقصان میں ہم دونوں برابر کےشریک ہونگے۔ میں نے اپنے دوست کو کوشش کرکے پچاس لاکھ سے شروع کرکے ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپیہ دیے جس میں سے میرے دوست نے مجھے ایک کروڑ آٹھ لاکھ روپیہ کا مال لےکر دیا ۔ مال لینے کے بعد ہم نے کافی دن انتظار کیا، لیکن مال نفع پر فروخت نہیں ہورہا تھا، بلکہ نقصان پر فروخت ہورہا تھا ۔اس دوران میں نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ بےفکر رہیں، بالکل ٹینشن نہ لیں۔ اس مال کے نقصان میں آپ کو میں شریک نہیں کروں گا، آپ میری طرف سے آزاد ہو ۔
میں نے مال آٹھ سے سات لاکھ کے نقصان پر فروخت کردیا اور میں اس نقصان پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اے میرے رب ہر کام میں آپ کا خیر ہوگا اور میں خاموش رہا ۔
کچھ دن بعد مجھے ایک شخص ملا اُس نے کہا کہ آپ کے دوست کا مال میری توسط سے میں نے اپنے کزن سے سودا کروایا تھا، جس میں آپ کے دوست نے مجھے کہا تھا کہ یہ مال مجھے لےکر دو، میں آپ کو ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ کمیشن دوں گا ۔ اب تمہارے دوست نے مجھ سے کہا کہ یار میں نے تو آپ کی آدھی رقم زبیر کو (یعنی مجھے) نقصان کی عوض میں ادأ کردی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں اُس کو میں نے نقصان کے معاملہ سے مستسنی کردیا ، لہذا اُس نے مجھے کوئی نقصان نہیں دیا ہے، وہ جھوٹ بول رہا ہے، پھر میں نے اُن سے مال کے متعلق پوچھا کہ آپ نے سودا کتنے روپیہ فی کلو کروایا تھا تو اس نے مجھے کہا کہ میں نے رزاٸی آٹھ سو روپیہ کلو اور جاکٹ سات سو روپیہ میں ،حالانکہ میرے دوست نے رزاٸی آٹھ سو بیس روپیہ اور جاکٹ ساتھ سو پندرہ روپیہ میں دیا تھا ۔جو درحقیقت میرے دوست نے مال میں ٹوٹل وزن کے حساب سے دولاکھ چالس ہزار کے قریب مجھ سے زیادہ پیسے لیٸے۔
اب کیامیں اس زیادہ رقم کا مطالبہ اور باقی نقصان جس میں ہم برابر کے شریک ہیں کا مطالبہ کرسکتا ہوں؟
نوٹ : جس نقصان سے میں نے اپنے دوست کو مستسنی کیا تھا، اُس وقت میری نیت یہ تھی کہ میرے دوست نے سچ بول کر آٹھ سو بیس روپیہ میں لےکر مجھ پر فروخت کیا تھا، حالانکہ معاملہ اس طرح نہیں تھا، بلکہ فی کلو وزن بیس روپیہ اور پندرہ روپیہ جھوٹ بول کر اپنے لیے نفع رکھا تھا ، جس پر مجھے کافی افسوس ہوا اور میں نے سوچھا کہ یا اللہ میری نیت تو معاف کرنے کی وجہ یہی تھی کہ میرے دوست نے مجھ سے نفع نہیں رکھا ہوگا، کیونکہ وہ مجھ سے نفع نقصان میں برابر کا شریک تھا۔اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب: سوال میں ذکرکردہ صورت میں آپ نے مال فراہم کیا ہے اور آپ کے دوست نے اپنی خدمات ‏‏(‏Services‏) پیش کی ہیں، لہذا یہ معاملہ شرعاً " عقدِ" مضاربت" کا ہے اور مضاربت میں نفع اور نقصان کا شرعی ‏اصول یہ ہے کہ نفع طے شدہ شرائط کے مطابق فیصد کے اعتبار سے فریقین میں تقسیم ہوگا، جبکہ نقصان صرف ‏رب المال (جس کا سرمایہ لگا ہو) کے ذمہ ہوگا، بشرطیکہ مضارب (کام کرنے والے) کی طرف سے کوئی غفلت یا ‏کمی کوتاہی اور دھوکہ یا خیانت نہ ہو، اگر اس کی طرف سے کام میں کمی کوتاہی، غفلت یا خیانت کی وجہ سے نقصان ہوجائے ‏تو پھر وہ (مضارب) نقصان کا ذمہ دار ہوگا۔
لہٰذا اگر آپ کا بیان درست ہے اور واقعتاً آپ کے دوست نے سامان کی اصل قیمتِ فروخت آپ سے ‏چھپا کر آپ کو نقصان پہنچایا ہے تو آپ اس سے اس کی اس غلط بیانی کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کی رقم لے ‏سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (459/3، ط: دار الجيل)‏
‏(المادة 1428) (يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط ‏أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط) . يعود الضرر والخسار في كل ‏حال على رب المال إذا تجاوز الربح إذ يكون الضرر والخسار في هذا الحال جزءا ‏هالكا من المال فلذلك لا يشترط على غير رب المال ولا يلزم به آخر. ويستفاد ‏هذا الحكم من الفقرة الثانية من المادة الآنفة وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما ‏أو جميعه على المضارب فلا يعتبر ذلك الشرط. انظر المادة (83) أي يكون ‏الشرط المذكور لغوا فلا يفسد المضاربة (الدرر) ؛ لأن هذا الشرط زائد فلا ‏يوجب الجهالة في الربح أو قطع الشركة فلا تفسد المضاربة به حيث إن ‏الشروط الفاسدة لا تفسد المضاربة‎.‎

و فيها أیضاً‎:‎‏ (452/3، ط: دار الجیل)‏
المادة (1421): (إذا خرج المضارب عن مأذونيته وخالف الشرط يكون غاصبا ‏وفي هذا الحال يعود الربح والخسارة في بيع وشراء المضارب عليه، وإذا تلف مال ‏المضاربة يكون ضامنا) إذا خرج المضارب عن الإذن الذي أعطي له وخالف ‏القيد والشرط المفيد كما بين في المادة الآنفة فيكون قد تعدى على مال الغير، ‏فإذا كانت المخالفة في كل المال فيعد غاصبا لكل المال وإذا كانت المخالفة في ‏بعضه فيعد غاصبا لبعضه‎…..‎‏ وفي هذا الحال أي في حال المخالفة والغصب ‏يعود الربح والخسار في بيع وشراء المضارب عليه أي على المضارب، مثلا لو قيد ‏رب المال المضاربة بنوع تجارة فاشتغل المضارب بنوع تجارة أخرى فيكون ربح ‏وخسار المال الذي اشتراه عائدا عليه أما عند الطرفين فلا يطيب له الربح (الدر ‏المنتقى) ويضمن رأس المال كذلك ‏‎……‎إذا نهى رب المال المضارب بقوله له: ‏لا تذهب إلى المحل الفلاني فخالفه المضارب وذهب إلى ذلك المحل وتلف مال ‏المضاربة يضمن المضارب؛ لأنه أصبح غاصبا في مخالفة أمر رب المال‎.‎

و فيها أیضاً‎:‎‏ (426/3، ط: دار الجيل)‏
ويستفاد من حصول العمل من قبل المضارب أنه لو شرط عمل رب المال مع ‏المضارب تفسد المضاربة؛ لأن هذا الشرط يخل بتسليم رأس المال للمضارب.‏
انظر المادة (1410) سواء كان رب المال المشروط عمله عاقدا أو غير عاقد ‏كالصغير والمعتوه‎….‎‏ أما إذا لم يشرط عمل رب المال مع المضارب وسلم رب ‏المال رأس المال إلى المضارب ليبيع ويشتري وسلم برضائه رأس المال أو بعضه ‏لرب المال جاز (الولوالجية وتكملة رد المحتار) ويكون عمل رب المال كعمل ‏المضارب ويكون رب المال معينا للمضارب في إقامة العمل ويكون رأس المال في ‏يد رب المال على سبيل البضاعة؛ لأن شرط تسليم رأس المال إلى المضارب قد ‏تحقق والإيضاع توكيل من المضارب وكما أن للمضارب حقا بالاستعانة ‏بالأجنبي فله الحق بالاستعانة برب المال الذي هو أنفق على ماله من الأجنبي ‏بطريق الأولى (تكملة) .‏

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 284 Jul 25, 2023
muzarib / mozarib k khayanat ki sorat / soorat me / mein nuqsan ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.