عنوان: شیئرز کی خرید و فروخت کا حکم(1078-No)

سوال: اسٹاک ایکسچینج میں شیرز کا خریدنا اور بیچنا جائز ہے؟ بشرطیکہ سودی کمپنی کا نہ ہو اور کاروبار سیدھے طریقے سے ہو؟

جواب: واضح رہے کہ شیئرز کی خریدوفروخت درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے :
١- جس کمپنی کے شیئرز خریدے جائیں اس کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہو۔
٢- اس کمپنی کے کچھ جامد اثاثے بھی ہوں، ساری رقم نقد کی شکل میں نہ ہو۔
٣- کمپنی کے شیئرز خریدنے کے بعد، اس کمپنی کے حرام معاملات میں ملوث ہونے کا علم ہو تو کمپنی کے سالانہ اجلاس میں اس کے خلاف شیئر ہولڈرز آواز اٹھائیں۔
۴- کمپنی کے حرام معاملات کی وجہ سے جو نفع حاصل ہو ، اس کو بلا نیت ثواب فقراء پر صدقہ کیا جائے گا۔
۵- اگر شیئرز کو آگے فروخت کرنا ہو، تو جب تک اس شیئر کو مکمل اپنے قبضہ اور ضمان (رسک) میں نہ لے لیا جائے، اس کو آگے فروخت نہ کیا جائے ۔
۶- شیئرز کی خریدوفروخت میں رائج الوقت سٹہ اور جوئے کی صورتوں سے بچا جائے۔
مذکورہ بالا شرائط کا اہتمام کرتے ہوئے، کسی بھی کمپنی کے شیئرز کی خریدوفروخت جائز ہے۔
اس کے علاوہ اگر کوئی نئی صورتحال پیش آتی ہے، تو مفتیان کرام سے اس کا حکم معلوم کرکے عمل کیا جائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 90)
یٰاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَo

عمدۃ القاری: (435/8)
الغرر ھو فی الاصل الخطر، و الخطر ھو الذی لا یدری أ یکون ام لا، و قال ان عرفۃ: الغرر ھو ما کان ظاھرہ یغر و باطنہ مجہول، قال و الغرور ما راأیت لہ ظاہرا تحبہ و باطنہ مکروہ أو مجہول، و قال الأزہری: البیع الغرر ما یکون علی غیر عھدۃ و لا ثقۃ، و قال صاحب المشارق: بیع الغرر بیع المخاطرۃ، و ھو الجہل بالثمن أو المثمن أو سلامتہ أو أجلہ۔

مصنف ابن ابی شیبہ: (کتاب البیوع و الاقضیہ، 483/4، ط: مکتبة الرشد)
عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر".

رد المحتار: (کتاب الحظر و الاباحۃ، 403/6، ط: سعید)
(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

و فیہ ایضاً: (99/5، ط: دار الفکر)
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه

بذل المجہود: (359/1، ط: مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
یجب علیہ أن یردہ إن وجد المالک وإلا ففي جمیع الصور یجب علیہ أن یتصدق بمثل ملک الأموال علی الفقراء۔

الھندیۃ: (319/2، ط: دار الفکر)
أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات

و فیھا ایضاً: (320/2، ط: دار الفکر)
كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضيعته عليه

الھدایۃ: (59/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
فصل: "ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه"
لأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع ما لم يقبض ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 714 Mar 20, 2019
shares ki khareed o farokhat / farokht ka hukum, order of trade/ selling and purchasing in shares

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.