سوال:
ہم پانچ بہن بھائی ہیں، ہم نے اپنی وراثت کی جگہ فروخت کی اور اس کی رقم قسطوں میں وصول کی، ہماری ایک بہن کو گھر کی تعمیر کے لیے رقم درکار تھی، ہم نے پہلے رقم سے بہن کے گھر کی تعمیر کی اور باقی ماندہ رقم جو ہمارے حصہ کی تھی اس سے ہم دو بھائیوں نے ایک پلاٹ خرید لیا۔ پلاٹ خریدتے وقت ہماری نیت یہ تھی کہ ہم اپنی رقم محفوظ کرلیں، مگر اس وقت ہماری ایک انویسٹر سے تعمیر کر کے فروخت کرنے کی بات ہوئی، مگر انویسٹر کا ارادہ نہ بنا، اس کے بعد ہم نے پلاٹ کی رقم محفوظ رکھنے کے لئے رہنے دیا تاکہ ہم دونوں بھائی الگ الگ گھر بنائیں۔ اس پلاٹ کو خریدے ڈیڑھ سال ہو گیا ہے، اس کے متعلق زکوۃ کا کیا حکم ہے؟اگر اس پر زکوة ہے تو کب سے ہے، جس وقت پلاٹ خریدا تھا یا جب سے وراثت کی رقم ملی ہے؟ اور اگر وراثت کی رقم کے ملنے سے ہے تو اس کی ترتیب کیا ہوگی، جبکہ رقم قسطوں میں آئی ہے؟
جواب: یاد رہے کہ تقسیم سے پہلے میراث کے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، البتہ تقسیم کے بعد اگر حصہ دار پہلے سے صاحب نصاب ہو تو اس پر لازم ہوتا ہے کہ باقی اموال کے ساتھ میراث سے ملنے والے مال کی زکوٰۃ بھی ادا کرے، اس مال پر الگ سے سال گزرنا شرط نہیں ہوتا، اور اگر حصہ دار پہلے سے صاحب نصاب نہ ہو بلکہ میراث کا حصہ ملنے والے دن صاحب نصاب بنا ہو تو پھر سال گزرنے پر کل اموالِ زکوٰۃ کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوتی ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں مذکورہ پلاٹ چونکہ تجارت (فروخت کرکے نفع کمانے) کی نیت سے نہیں خریدا گیا ہے اس لئے اس کی مالیت پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب نہیں ہے، البتہ اگر پلاٹ خریدنے سے پہلے آپ صاحب نصاب تھے اور میراث سے ملنے والی نقد رقم آپ کے پاس ہوتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاریخ آگئی تھی تو آپ پر اس نقد رقم کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی واجب تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (فصل الشرائط التي ترجع إلى المال، 9/2، ط: دار الفکر)
وأما الشرائط التي ترجع إلى المال فمنها: الملك۔۔۔ومنها الملك المطلق وهو أن يكون مملوكا له رقبة ويدا وهذا قول أصحابنا الثلاثة
الدر المختار: (267/2، ط: الحلبي)
(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها ... أو نية التجارة في العروض، إما صريحا ولا بد من مقارنتها لعقد التجارة كما سيجيء، أو دلالة بأن يشتري عينا بعرض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض فتصير للتجارة بلا نية صريحا.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی