سوال:
ایک شخص اپنے مقروض کو کہتا ہے کہ آپ میری طرف سے زکوة ادا کردیں، جس میں سے ایک ہزار روپیہ آپ قبول کرلیں اور باقی دوسرے مسکینوں کو دے دیں۔ وہ مقروض اس کی طرف سے اسی طریقے سے زکوة ادا کردیتا ہے۔ چند دن بعد یہ شخص تمام مسکینوں سے یہ کہہ کر رقم واپس لے لیتا ہے کہ مقروض مجھے قرض واپس دے گا تو آپ لوگوں کو زکوة دوں گا۔ کیا ان مسکینوں سے اب یہ رقم واپس لینا جائز ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں مقروض نے قرض خواہ کے حکم سے جن لوگوں کو زکوٰۃ کی رقم دی ہے، اگر وہ سب زکوٰۃ کے مستحق ہیں تو اس سے قرض خواہ کی زکوٰۃ ادا ہوگئی ہے، اور چونکہ زکوٰۃ اس کے حکم سے ادا کی گئی ہے اس لیے اب اسے یہ رقم واپس لینے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ تاہم خود مقروض کو جو ایک ہزار روپے زکوٰۃ کی مد میں معاف کیے ہیں، اس ایک ہزار کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی، کیونکہ یہاں مقروض کو قرض میں سے کچھ رقم زکوٰۃ کی مد میں معاف کی گئی ہے مالک بناکر نہیں دی گئی ہے، جبکہ زکوٰۃ میں مالک بنانا شرط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (269/2، ط: دار الفکر بیروت)
قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع .
(قوله ولو تصدق إلخ) أي الوكيل بدفع الزكاة إذا أمسك دراهم الموكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم الموكل صح.
و فیه أیضاً: (271/2، ط: دار الفکر بیروت)
حيلة الجواز أن يعطي مديونه الفقير زكاته ثم يأخذها عن دينه۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی