سوال:
بعد سلام عرض ہے کہ میں نے ایک فیملی کو فلیٹ اڑتالیس ہزار کرایہ بمعہ مینٹیننس پر دیا، اس فیملی نے ٹوکن پانچ ہزار بیانہ 25 جنوری کو دیا اور نے ڈپازٹ 8 فروری کو دیا، جبکہ 20 فروری کو فلیٹ کا قبضہ دینا شروع سے طے ہوا تھا، 20 فروری کو فلیٹ تیار تھا لیکن قبضہ نہی لیا گیا، پھر 24 فروری کو اس فیملی نے فلیٹ لینے سے معذرت کرلی اور ڈپازٹ واپسی کا تقاضا کیا، اور یہ فلیٹ اگلے ماہ 20 مارچ کو کرایہ پر کسی اور نے لے لیا۔
اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ اس معاملے میرا جو اس فیملی کی وجہ سے پچیس جنوری سے بیس مارچ تک کا وقت ضائع ہوا، اس دوران مکان کسی اور کو کرایہ پر نہیں دیا تو کیا میں اس کے کرایہ کا مطالبہ کرسکتا ہوں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں جب کرایہ داری کا معاملہ طے ہوگیا تھا تو کرایہ دار کا کسی معقول عذر کے بغیر یکطرفہ طور پر اس معاملہ کو ختم کرنا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، جو کہ شرعا درست نہیں ہے، نیز معاہدہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے اگر آپ کا کوئی حقیقی نقصان ہوا ہو، تو اس کی تلافی کرایہ دار سے کروائی جاسکتی ہے، لیکن پوچھی گئی صورت میں 25 فروری سے 20 مارچ تک کا جو وقت ضائع ہوا اس کی تلافی کرایہ سے نہیں کرائی جاسکتی، کیونکہ اس وقت کا کرایہ نہ ملنا حقیقی نقصان نہیں ہے، بلکہ متوقع فائدہ تھا جو نہ مل سکا، لہذا اس کا مطالبہ نہیں کیا سکتا، تاہم مصالحت کے طور پر اگر کرایہ دار اپنی مرضی سے کچھ رقم دینا چاہے، تو لی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدۃ، الایة: 1)
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوۡفُواْ بِٱلۡعُقُودِۚ ۔۔۔ إلخ
فقه البیوع: (113/1، ط: معارف القرآن)
لا یجوز ان یحمل المتخلف عن الوعد تعویضا الا بمقدار الخسارة الفعلية التی اصیب به الطرف الآخر مثل ان یضطر البائع الی بیع المبیع باقل من سعر تکلفته.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی