سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص کی بیٹی غریب ہے، داماد کی کمائی سے گھر کا خرچہ نہیں چلتا، لہذا اس نے اپنی بیٹی کو ماہانہ زکوٰۃ کی رقم سے تیس ہزار روپے دینا شروع کیے، انہوں نے اپنے نواسے کے ہاتھوں اپنی بیٹی کو یہ رقم بھیجنا شروع کی۔ داماد خود اپنے ہاتھوں سے رقم وصول نہیں کرتا، البتہ انہیں اس بات کا علم ہے۔ اب کسی نے انہیں بتایا کہ اس طرح زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، بلکہ داماد کو مکمل اختیار کے ساتھ یہ رقم دینی ضروری تھی، جبکہ یہ رقم مذکورہ شخص کی بیٹی کی تحویل میں جاتی تھی اور وہ ہی گھر کے اخراجات میں صرف کرتی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ پچھلے سالوں کی زکوٰۃ ادا ہوچکی ہے یا نہیں؟ آیا اس طرح دی گئی زکوٰۃ دوبارہ ادا کرنا ضروری ہے؟
جواب: واضح رہے کہ والد اپنی بیٹی کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دے سکتا، البتہ اگر داماد مستحق ہو تو اسے زکوٰۃ کی رقم مالک بناکر دی جاسکتی ہے۔
تاہم پوچھی گئی صورت میں اگر والد کو مسئلہ معلوم نہ ہو، اور وہ یہ سمجھ کر بیٹی کو زکوٰۃ دیتا رہا ہو کہ بیٹی کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے تو اس کی زکوٰۃ ادا ہو گئی ہے، دوبارہ ادائیگی کی ضرورت نہیں، البتہ اب مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد آئندہ بیٹی کو زکوٰۃ کی رقم دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (170/1، ط: دارالفکر)
فَهِيَ تَمْلِيكُ الْمَالِ مِنْ فَقِيرٍ مُسْلِمٍ غَيْرِ هَاشِمِيٍّ، وَلَا مَوْلَاهُ بِشَرْطِ قَطْعِ الْمَنْفَعَةِ عَنْ الْمُمَلِّكِ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ لِلَّهِ - تَعَالَى-.
و فیها ایضا: (188/1)
وَلَا يَدْفَعُ إلَى أَصْلِهِ، وَإِنْ عَلَا، وَفَرْعِهِ، وَإِنْ سَفَلَ كَذَا فِي الْكَافِي.
الدر المختار: (352/2، ط: سعید)
(دفع بتحر) لمن يظنه مصرفا(فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنا أعادها) لما مر (وإن بان غناه أو كونه ذميا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد لأنه أتى بما في وسعه، حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ.
والله تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی