سوال:
ایک شخص نے لنڈا سے ایک پینٹ خریدی، گھر آنے پر اس میں سے 20 ڈالر نکلے، اسں نے اپنی ضروریات میں وہ خرچ کر دیے، کیا اس کے لیے وہ رقم حلال تھی یا نہیں؟ اور اگر حلال نہیں تھی تو اب اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟
جواب: آپ نے لُنڈے کے مال سے جو پینٹ خریدی ہے، غالب یہی ہے کہ یہ پینٹ بیرون ملک سے آئی ہے اور اس کی جیب سے ملنے والے ڈالر وہاں کے کسی شخص کے ہیں۔
چونکہ ایسی صورتحال میں اس کو اصل مالک تک پہنچانا عام طور پر ممکن نہیں ہے، اس لیے اگر آپ اس وقت مستحقِ زکوۃ تھے تو آپ کے لئے اس رقم کا استعمال درست تھا، لیکن اگر آپ اس وقت مستحق نہیں تھے اور یہ رقم استعمال کرلی تو اب اتنی رقم کسی مستحق شخص کو دینا آپ پر لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (166/5، ط: دار الكتاب الإسلامي)
واستثنى من التصدق باللقطة ما إذا عرف أنها لذمي فلا يتصدق بها وكانت في بيت المال للنوائب كذا في التتارخانية.
الفتاوى الهندية: (290/2، ط: دار الفكر)
كل لقطة يعلم أنها كانت لذمي لا ينبغي أن يتصدق بها ولكن تصرف إلى بيت المال لنوائب المسلمين، كذا في السراجية.
احسن الفتاوی: (389/6، ط: سعید)
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی