سوال:
سوال یہ ہے کہ کسی چیز مثلاً روڈ دوکان وغیرہ کا نام اللّٰہ اکبر رکھنا کیسا ہے؟ جیسا کہ اللّٰہ اکبر روڈ یا اللّٰہ اکبر چڑھائی یا اللّٰہ اکبر دکان وغیرہ۔ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعض اسماء ذاتی ہوتے ہیں اور بعض اسماء وہ ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ کی مخصوص صفات کے لیے خاص ہیں، جیسے: اللّٰہ، الرحمٰن، الرزاق، الخالق وغیرہ۔ ان اسماء کا غیراللّٰہ کےلیے استعمال شرعاً ناجائز ہے۔
اسی طرح "اللّٰہ اکبر" ایک جلیل القدر "کلمہ توحید" ہے جو اذان، نماز اور دیگر عبادات میں ادا کیا جاتا ہے، لہٰذا اس عظیم کلمے کو کسی دکان، سڑک یا مقام کے نام کے طور پر رکھنا شرعاً درست نہیں ہے۔
البتہ وہ اسماء جو صفاتِ مخصوصہ میں شامل نہیں اور قرآن و حدیث یا عرف میں غیر اللّٰہ کے نام کے طور پر استعمال کیے جاتے ہوں، جیسے:کریم، رحیم، رشید وغیرہ۔ ایسے اسماء کو کسی سڑک، مکان یا دکان کے نام کے طور پر رکھنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسير روح المعاني: (سورة الأعراف، 115/5، ط: دار الکتب العلمیة)
ﻭﺫﻛﺮ ﻏﻴﺮ ﻭاﺣﺪ ﻣﻦ اﻟﻌﻠﻤﺎء ﺃﻥ ﻫﺬﻩ اﻷﺳﻤﺎء ﻣﻨﻬﺎ ﻣﺎ ﻳﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺻﻔﺔ ﻓﻌﻠﻴﺔ ﻭﻣﻨﻬﺎ ﻣﺎ ﻳﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺻﻔﺔ ﻧﻔﺴﻴﺔ ﻭﻣﻨﻬﺎ ﻣﺎ ﻳﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺻﻔﺔ ﺳﻠﺒﻴﺔ. ﻭﻣﻨﻬﺎ ﻣﺎ اﺧﺘﻠﻒ ﻓﻲ ﺭﺟﻮﻋﻪ ﺇﻟﻰ ﺷﻲء ﻣﻤﺎ ﺫﻛﺮ ﻭﻋﺪﻡ ﺭﺟﻮﻋﻪ ﻭﻫﻮ اﻟﻠﻪ ﻭاﻟﺤﻖ ﺃﻥﻫ اﺳﻢ ﻟﻠﺬاﺕ ﻭﻫﻮ اﻟﺬﻱ ﺇﻟﻴﻪ ﻳﺮﺟﻊ اﻷﻣﺮ ﻛﻠﻪ، ﻭﻣﻦ ﻫﻨﺎ ﺫﻫﺐ اﻟﺠﻞ ﺇﻟﻰ ﺃﻧﻪ اﻻﺳﻢ اﻷﻋﻈﻢ، ﻭﺗﻨﻘﺴﻢ ﻗﺴﻤﺔ ﺃﺧﺮﻯ ﺇﻟﻰ ﻣﺎ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺇﻃﻼﻗﻪ ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮﻩ ﺳﺒﺤﺎﻧﻪ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ ﻛﺎﻟﻠﻪ ﻭاﻟﺮﺣﻤﻦ ﻭﻣﺎ ﻳﺠﻮﺯ ﻛﺎﻟﺮﺣﻴﻢ ﻭاﻟﻜﺮﻳﻢ الخ .
الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الحظر والاباحة، 417/6، ط: سعيد)
(ﺃﺣﺐ اﻷﺳﻤﺎء ﺇﻟﻰ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ) ﻭﺟﺎﺯ اﻟﺘﺴﻤﻴﺔ ﺑﻌﻠﻲ ﻭﺭﺷﻴﺪ ﻣﻦ اﻷﺳﻤﺎء اﻟﻤﺸﺘﺮﻛﺔ ﻭﻳﺮاﺩ ﻓﻲ ﺣﻘﻨﺎ ﻏﻴﺮ ﻣﺎ ﻳﺮاﺩ ﻓﻲ ﺣﻖ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻟﻜﻦ اﻟﺘﺴﻤﻴﺔ ﺑﻐﻴﺮ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻧﻨﺎ ﺃﻭﻟﻰ ﻷﻥ اﻟﻌﻮاﻡ ﻳﺼﻐﺮﻭﻧﻬﺎ ﻋﻨﺪ اﻟﻨﺪاء ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺴﺮاﺟﻴﺔ.
(ﻗﻮﻟﻪ ﻭﺟﺎﺯ اﻟﺘﺴﻤﻴﺔ ﺑﻌﻠﻲ ﺇﻟﺦ) اﻟﺬﻱ ﻓﻲ اﻟﺘﺘﺎﺭﺧﺎﻧﻴﺔ ﻋﻦ اﻟﺴﺮاﺟﻴﺔ اﻟﺘﺴﻤﻴﺔ ﺑﺎﺳﻢ ﻳﻮﺟﺪ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻛﺎﻟﻌﻠﻲ ﻭاﻟﻜﺒﻴﺮ ﻭاﻟﺮﺷﻴﺪ ﻭاﻟﺒﺪﻳﻊ ﺟﺎﺋﺰﺓ ﺇﻟﺦ، ﻭﻣﺜﻠﻪ ﻓﻲ اﻟﻤﻨﺢ ﻋﻨﻬﺎ ﻭﻇﺎﻫﺮﻩ اﻟﺠﻮاﺯ ﻭﻟﻮ ﻣﻌﺮﻓﺎ ﺑﺄﻝ.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی