عنوان: عیسائی عامل سے علاج کرانے والے شخص کا کافر ہوجانا (10886-No)

سوال: اگر ہم کسی شخص کو عیسائی عامل کے پاس جانے سے روکتے ہیں اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں وہ بھی اہل کتاب ہیں کچھ نہیں ہوتا اور اس کی بیوی بولتی ہے کہ ہماری زندگی ہے، ہماری مرضی ہم جو چاہیں کریں، کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہِیں ہونا چاہیے۔ کیا یہ کفریہ کلمات ہیں اور اگر یہ کفریہ کلمات ہیں اورکیا ہمارے لیے ان کے ساتھ ملنا رابطہ رکھنا جائز ہے؟
جزاکم اللہ خیرا

جواب: پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص اور اس کی بیوی کی بات کا بظاہر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ جس طرح کسی مسلمان عامل سے علاج کرایا جاسکتا ہے، اسی طرح کسی عیسائی عامل سے بھی علاج کرایا جاسکتا ہے اور وہ اپنے گمان میں اس عیسائی کو اس کے حقیقی مذہب کے مطابق اہل کتاب سمجھتے ہیں جو کہ کسی درجہ میں ممکن بھی ہے، لہذا صرف ان کلمات کی وجہ سے انہیں ہرگز کافر نہیں کہا جاسکتا۔
یاد رہے کہ کسی کو کافر کہنا ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے اور اس میں حد درجہ احتیاط لازم ہے، البتہ ان دونوں میاں بیوی کو چاہیے کہ اس موقع پر اپنی زبان کو احتیاط سے استعمال کریں اور آپ کو بھی چاہیے کہ انہیں نرمی اور حکمت سے سمجھانے کی کوشش کریں، سختی سے گریز کریں۔
جہاں تک عیسائی عامل سے علاج کرانے کا تعلق ہے تو یہ واضح رہے کہ عملیات کی جائز اور ناجائز دونوں اقسام ہیں، لہذا اولاً تو ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں ایسے باعلم و عمل دیندار مسلمان شخص سے رجوع کرے جو قرآنی آیات، احادیث مبارکہ کی دعاؤں اور ایسے جائز کلمات سے علاج کرتا ہو، جن میں کفر و شرک اور گناہ کی بات نہ ہو، نیزعیسائی عامل اگر اپنے اصل مذہب پر نہ ہو تو اس بات کا بھی قوی اندیشہ ہے کہ وہ ان شرائط کی رعایت نہ رکھتا ہو، اس لیے اس سے عملیات کے ذریعہ علاج کروانے سے بچنا چاہیے۔ ‏

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (363/6، ط: دار الفکر)‏
ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي ‏رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير ‏لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ‏ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اه‎.‎

رد المحتار (224/4، ط: دار الفكر)‏
وفي الفتاوى الصغرى: الكفر شيء عظيم فلا أجعل المؤمن كافرا متى وجدت ‏رواية أنه لا يكفر اه وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب ‏التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير ‏تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه ‏التأويل ح وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل، لأن الكفر نهاية في العقوبة ‏فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اه والذي تحرر أنه لا يفتى ‏بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو ‏رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير فيها ‏ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها اه كلام البحر باختصار‎.‎

الفتاوى الهندية: (283/2، ط: دار الفكر)‏
إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل ‏إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، ‏فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه ‏الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا ‏تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين ‏امرأته كذا في المحيط.‏

شرح النووي على مسلم: (150/1، ط: دار إحياء التراث العربي)‏
واعلم أن مذهب أهل الحق أنه لا يكفر أحد من أهل القبلة بذنب ولا يكفر ‏أهل الأهواء والبدع وأن من جحد ما يعلم من دين الإسلام ضرورة حكم بردته ‏وكفره‎.‎

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 517 Aug 15, 2023
esai / esaye / christian aamil se / say elaj / ilaaj karane / karaney wale shakhs ka kafir hojana

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.