عنوان: والدہ کا زندگی میں سونا اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے نام کرنا اور ایک بیٹی کا اسے استعمال کرلینے کا حکم(10898-No)

سوال: والدہ نے اپنی زندگی میں بہنوں کو سونا دیا اور کہا کہ یہ اپنی بیٹیوں کی شادی میں استعمال کر لینا اور یہ آپ دونوں بہنوں کا حصہ ہے۔ والدہ کے انتقال کے بعد بہنیں کہتی ہیں کہ ہمارا حصہ مل گیا تھا، لہذا اب اس سونے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ باقی ہم تین بھائی ہیں، سب سے بڑے بھائی جو انتقال کرگئے ہیں، ان کے ہاں تین بیٹے ہیں، لیکن بیٹی نہیں ہے۔ والدہ نے اپنی حیات میں میرے سے بڑے بھائی کو کہا تھا کہ تم دونوں بھائیوں کے ہاں بیٹیاں ہیں، لہذا تم دونوں بھائی باقی سونا ان کی شادیوں میں استعمال کر لینا، کیونکہ تیسرے بھائی کے ہاں بیٹی نہیں ہے، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا۔ اب پوچھنا یہ تھا کہ بڑے بھائی کی کوئی بیٹی نہیں ہے، اس لیے باقی سونا میں اُس بھائی کا کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ والدہ نے اپنی حیات میں کہاں تھا کہ دونوں بھائی اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے باقی سونا استعمال کر لینا۔ رہنمائی فرمائیں
تنقیح: محترم آپ ان باتوں کی وضاحت فرمائیں:
۱) آپ کی والدہ نے اپنی دونوں بیٹیوں کو اپنی زندگی ہی میں سونا بطور ہدیہ دے دیا تھا اور دونوں بیٹیوں نے اپنے حصہ کے بقدر قبضہ کرلیا تھا؟
۲) اگر بطورِ ہدیہ قبضہ کرلیا تھا تو بعد میں ان کے اس جملہ کا کیا مطلب ہے؟ "ہمارا اس سونے سے کوئی تعلق نہیں ہے" آیا اس سے مقصود یہ سونا تمام بھائیوں کو دینا تھا یا کچھ اور معاملہ طے ہوا تھا؟ وضاحت فرمائیں۔
۳) والدہ نے اپنے دونوں بیٹوں کو صرف یہ کہا تھا کہ تم دونوں یہ سونا اپنی بیٹیوں کی شادی میں استعمال کرلینا یا سابقہ تفصیل کے مطابق قبضہ بھی دیا تھا؟
۴) آپ کے بڑے بھائی کا انتقال آپ کی والدہ کے حیات میں ہی ہوا تھا یا ان کی وفات کے بعد؟ ان باتوں کی وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
جواب تنقیح:
والدہ نے اپنی زندگی میں بہنوں کو سونے کی مقداربتا دی تھی اور کہا کہ یہ اپنی اپنی بیٹی کی شادی میں استعمال کر لینا اور یہ آپ دونوں بہنوں کا حصہ ہے۔ ایک بہن کو والدہ نے زندگی میں ہی دے دیا تھا، جبکہ دوسری بہن کو اسی مقدار میں ہم بھائیوں نے والدہ کے انتقال کے بعد دیا تھا۔ ابھی ہم بھائیوں کی بیٹیوں کی شادی نہیں ہوئی ہے، اچانک ضرورت پڑنے پر ہم دونوں بھائی اس گولڈ کو استعمال کرنے چاہ رہے تھے، اس لیے بہنیں کہہ رہی ہیں کہ والدہ نے ہمارا حصہ دے دیا تھا، لہذا اب اس گولڈ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ آپ بھائیوں کا ہے.
والدہ نے بڑے بھائی کو کہا تھا کہ دونوں بہنوں کو دینے کے بعد جو بچا ہے وہ دونوں بھائی اپنی اپنی بیٹیوں کی شادی میں استعمال کر لینا، بڑے بھائی کا انتقال والدہ کے انتقال کے بعد ہوا تھا اور ان ہاں کوئی بیٹی نہیں تھی، صرف 3 بیٹے ہیں۔

جواب: واضح رہے کہ اگر والد یا والدہ زندگی میں ہی اپنی اولاد کو کوئی چیز دیتے ہیں تو وہ ہبہ (Gift) کہلاتی ہے، اور شرعاً ہبہ کے تام (مکمل) ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس شخص کو جو چیز ہبہ کی جارہی ہو، اسے وہ چیز  مالک بنا کر دی جائے اور وہ شخص اس چیز پر مالکانہ حیثیت سے قبضہ بھی کر لے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں مرحومہ نے زندگی میں اپنی جس بیٹی کو سونا ہبہ کرکے اس کے قبضہ میں دے دیا تھا تو وہ بیٹی سونے پر قبضہ کرنے سے اس کی مالک بن چکی ہے، لہذا اس سونے سے دیگر ورثاء کا حق متعلق نہ رہا، البتہ مرحومہ نے جن دو بیٹوں اور بیٹی کو صرف زبانی سونا دینے کا کہا تھا،  لیکن انہیں اپنی زندگی میں اس پر قبضہ نہیں دیا تھا تو وہ شرعا اس سونے کی مالک نہیں ہوں گے، بلکہ وہ سونا مرحومہ کے ترکہ میں شمار کیا جائے گا اور ہر وارث کو اس کے شرعی حصہ کے مطابق اس میں سے حصہ ملے گا۔
نیز چونکہ بڑے بیٹے کا انتقال والدہ کی وفات کے بعد ہوا ہے، لہذا والدہ کی کل میراث (بشمول سونے) میں سے اُس کا حصہ بھی نکالا جائے گا، اور پھر مرحوم بیٹے کا حصہ اس کے شرعی وارثوں کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
مرحومہ کی وفات کے بعد اس سونے سے چونکہ تمام ورثاء کا حق متعلق ہوچکا ہے، لہذا مرحومہ کی جس بیٹی نے ان کی وفات کے بعد سونا لیا ہے، ان پر لازم ہے کہ اپنے شرعی حصہ کے علاوہ بقیہ سونا دیگر ورثاء کو واپس کردے، البتہ اگر مرحومہ کے بالغ ورثاء (بشمول مرحوم بیٹے کی بالغ اولاد) اپنی خوشی و رضامندی سے اپنے حصہ کے بقدر سونا معاف کرنا چاہیں تو ان کو اس کا اختیار حاصل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (123/6، 127، ط: دار الكتب العلمية)
(أما) الأول فقد اختلف فيه قال عامة العلماء شرط والموهوب قبل القبض على ملك الواهب يتصرف فيه كيف شاء وقال مالك - رحمه الله - ليس بشرط ويملكه الموهوب له من غير قبض.
(وجه) قوله أن هذا عقد تبرع بتمليك العين فيفيد الملك قبل القبض كالوصية.
(ولنا) إجماع الصحابة - رضي الله عنهم - وهو ما روينا أن سيدنا أبا بكر وسيدنا عمر - رضي الله عنهما - اعتبرا القسمة والقبض لجواز النحلى بحضرة الصحابة ولم ينقل أنه أنكر عليهما منكر فيكون إجماعا وروي عن سيدنا أبي بكر وسيدنا عمر وسيدنا عثمان وسيدنا علي وابن عباس - رضي الله عنهم - عنهم أنهم قالوا لا تجوز الهبة إلا مقبوضة محوزة ولم يرد عن غيرهم خلافه ولأنها عقد تبرع فلو صحت بدون القبض لثبت للموهوب له ولاية مطالبة الواهب بالتسليم فتصير عقد ضمان وهذا تغيير المشروع بخلاف الوصية لأنه ليس في إيجاب الملك فيها قبل القبض تغييرها عن موضعها إذ لا مطالبة قبل المتبرع وهو الموصي لأنه ميت
أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض.

و فيه أيضاً: (56/6، 65، ط: دار الكتب العلمية)
وشركة الأملاك نوعان: نوع يثبت بفعل الشريكين، ونوع يثبت بغير فعلهما.
(وأما) الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا فيكون الموروث مشتركا بينهما شركة ملك.
فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 267 Aug 17, 2023
walda / walida / maa ka zindgi / zindagi me /mein sona apne betio / betion or beto / beton k naam karna or aik beti ka use /usey estemal / istemal kar lene ka hokom /hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.