سوال:
مفتی صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔میرا سوال یہ ہے کہ عورت جب احرام کی حالت میں ہو اور اس کے ساتھ چھوٹے بچے ہوں تو اکثر اوقات بچوں کے پیمپر تبدیل کرنے پڑتے ہیں جس سے ہاتھ پر نجاست بھی لگ جاتی ہے۔ اس صورت میں کیا عورت کے لیے بأمر مجبوری اس بات کی اجازت ہے کہ وہ صابن کے ساتھ ہاتھ دھوئے؟
اسی طرح ایک عام محرم اگر قضائے حاجت کرتا ہے تو استنجاء کے بعد اسے اپنے ہاتھوں پر بُو محسوس ہوتی ہے تو کیا وہ صرف انگلیوں پر صابن لگا کر بُو دور کر سکتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ احرام کی حالت میں خوشبودار صابن استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے خوشبو دار صابن سے ایک مرتبہ ہاتھ دھولیے تو صدقہ فطر کے برابر صدقہ کرنا لازم ہوگا اور اگر کئی مرتبہ ہاتھ دھوئے ہوں تو پھر دم لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
غنية الناسک: (133، ط: المطبعة الخيرية الهند)
ولو غسل راسه او يده باشنان فيه الطيب، فان كان من راه سماه اشنانافعليه صدقة الا ان يغسل مرارا فدم وان سماه طيبا فدم۔
المحيط البرهاني: (2/ 453، ط: دار الكتب العلمية)
إذا استعمل الطيب، فإن كان كثيراً فاحشاً، فعليه الدم، وإن كان قليلاً فعليه الصدقة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقال في المحرم: إذا مس الطيب أو استلم الحجر فأصاب يده خلوق، إن كان ما أصابه كثير فعليه الدم۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی