سوال:
مفتی صاحب! ہم بہن بھائیوں کو والد کی میراث میں ایک جائیداد ملی ہے، وہ میں نے پٹواری سے اور متعلقہ ادارہ سے سب کے نام کروالی ہے، اس نام کروانے پر چوبیس ہزار روپے لگے ہیں، میں نے کسی سے پوچھے بغیر اپنے پاس سے یہ رقم خرچ کری ہے تو کیا میں یہ رقم سب ورثاء سے لے سکتا ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر آپ نے جائیداد نام کروانے کا خرچہ ورثاء کی اجازت کے بغیر خود کیا ہو تو یہ خرچہ آپ کی طرف سے تبرع شمار ہو گا، خرچہ کرنے کے بعد ورثاء سے اس خرچہ کے مطالبہ کرنے کا آپ کو حق حاصل نہیں ہوگا ۔ اور اگرسب ورثاء کی اجازت سے خرچہ کیا ہو تو ہر وارث سے اس کے حصہ کے بقدر خرچہ وصول کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (المادة: 57، 57/1، ط: دار الجیل)
التبرع فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي.
وایضاً: (26/3، ط: دار الجیل)
"(المادة 1073) (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88).
الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی