سوال:
مفتی صاحب! میں سفر پر جارہا ہوں، آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ تیمم کرنا کب جائز ہوتا ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: چھ صورتوں میں تیمم کرنا جائز ہے:
(1) پانی کے استعمال پر قادر نہ ہونا یعنی مبتلابہ سے پانی ایک میل یا اس سے زیادہ مسافت پر ہو اور وہاں تک پہنچنے میں نماز کا وقت فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔
(2) پانی کے استعمال کی وجہ سے مرض بڑھ جانے یا دیر سے شفا ہونے کا خطرہ ہو۔
(3) سخت سردی جب کہ جنبی کے لئے گرم پانی سے غسل کا انتظام نہ ہو اور ٹھندے پانی سے جان کی ہلاکت یا اعضاء کے شل ہونے کا خطرہ ہو۔
(4) پانی کا ایسی خطرناک جگہ ہونا (مثلاً: وہاں سانپ ہو یا کوئی دشمن بیٹھا ہو یا بھیانک آگ جل رہی ہو) کہ وہاں جاکر پانی لانے میں سخت نقصان کا خطرہ ہو یا مثلاً: آدمی ایسی جگہ ہو کہ اگر وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ جائے تو اپنے مال کے ضائع ہونے کا خدشہ ہو۔
(5) پانی محض پینے کی ضرورت کے لئے کافی ہو اور اس سے وضو یا غسل کرنے سے قافلہ والوں یا ان کے جانوروں کے پیاسے مرجانے کا خوف ہو۔
(6) پانی کو کنویں وغیرہ سے حاصل کرنے کے لئے کوئی چیز موجود نہ ہو اور نہ کنویں میں اترنے کی ہمت ہو تو ان سب صورتوں میں تیمم کرکے نماز پڑھنا جائز ہے۔
(کتاب المسائل: 186/1، ط: المرکز العلمی للنشر والتحقیق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (232/1، ط: دار الفکر)
من عجز) مبتدأ خبره تيمم (عن استعمال الماء) المطلق الكافي لطهارته لصلاة تفوت إلى خلف (لبعده) ولو مقيما في المصر (ميلا) أربعة آلاف ذراع، وهو أربع وعشرون أصبعا، وهي ست شعيرات ظهر لبطن، وهي ست شعرات بغل (أو لمرض) يشتد أو يمتد بغلبة ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرك، أو لم يجد من توضئه، فإن وجد ولو بأجرة مثل وله ذلك لا يتيمم في ظاهر المذهب كما في البحر. وفيه: لا يجب على أحد الزوجين توضيء صاحبه وتعهده، وفي مملوكه يجب (أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه، وما قيل إنه في زماننا يتحيل بالعدة فمما لم يأذن به الشرع، نعم إن كان له مال غائب يلزمه الشراء نسيئة وإلا لا (أو خوف عدو) كحية أو نار على نفسه ولو من فاسق أو حبس غريم أو ماله ولو أمانة: ثم إن نشأ الخوف بسبب وعيد عبد أعاد الصلاة وإلا لا؛ لأنه سماوي (أو عطش) ولو لكلبه أو رفيق القافلة حالا أو مآلا، وكذا العجين، أو إزالة نجس كما سيجيء: وقيد ابن الكمال عطش دوابه بتعذر حفظ الغسالة بعدم الإناء.
وفي السراج للمضطر أخذه قهرا وقتاله، فإن قتل رب الماء فهدر وإن المضطر ضمن بقود أو دية (أو عدم آلة) طاهرة يستخرج بها الماء ولو شاشا وإن نقص بإدلائه أو شقه نصفين قدر قيمة الماء، كما لو وجد من ينزل إليه بأجر (تيمم) لهذه الأعذار كلها، حتى لو تيمم لعدم الماء ثم مرض مرضا يبيح التيمم لم يصل بذلك التيمم.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی