عنوان: والد کا اپنی اور مرحومہ بیوی کو میراث میں ملنے والی زمین بیٹوں میں تقسیم کردینا(10919-No)

سوال: والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہی اپنے پانچ بیٹوں کو اپنی اور سابقہ مرحومہ بیوی کو اس کے والد صاحب کی طرف سے دی گئی زمین کے کل پانچ حصے بنا کر پانچ بیٹوں کو سپرد کر دیے، اور بیٹیوں کے حصے میں ملنے والی ان کی مرحومہ والدہ کی وراثتی زمین بھی بیٹوں کے حصے میں دے دی اور یہ کہا کہ بیٹی اور داماد اگر زمین کا حصہ لیں تو مجھ سے مطالبہ کریں، بھائیوں کے مقررہ حصے سے نہ لیں، جبکہ قانون کے مطابق والدہ کی طرف سے وراثت میں ملنے والی زمین لڑکیوں کے نام رجسٹرڈ ہے۔
۱) اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیا والد صاحب کا اپنی جائیداد میں سے بیٹیوں کو محروم کرنا صحیح ہے؟
۲) کیا والد صاحب کی وفات کے بعد بہنیں اس زمین کی حقدار ہیں جو ان کی والدہ کی وراثت میں ان کے نام منتقل ہو گئی‎ ہے؟

جواب: ۱) زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان ہبہ کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہے رکھ لے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے، اور بقیہ جائیداد اپنی تمام اولاد میں برابر تقسیم کردے، یعنی جتنا بیٹے کو دے، اتنا ہی بیٹی کو دے، نہ کسی کو محروم کرے، اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کرے، البتہ اگر وہ اولاد میں سے کسی کو معقول وجہ (مثلاً: اولاد میں سے کسی کی مالی حالت کمزور ہونے، زیادہ خدمت گزار ہونے، علم دین میں مشغول ہونے یا کسی اور وجہ فضیلت کی وجہ) سے زیادہ دیتا ہے، اور اس سے دوسرے بچوں کو محروم کرنا یا نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو تو شرعاً وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔
پس اگر پوچھی گئی صورت میں بیٹوں کو جائیداد دینے میں ان وجوہات میں سے کوئی وجہ نہیں تھی تو والد کا بیٹیوں کو محروم کرنے کا یہ عمل غیر منصفانہ تھا، لیکن اس کے باوجود اگر آپ کے والد نے پانچوں بیٹوں کو جائیداد نام کرنے کے ساتھ ساتھ قبضہ اور ملکیت بھی دیدی تھی تو شرعاً یہ ہبہ(گفٹ) مکمل ہوگیا، اور پانچوں بیٹے اپنے اپنے حصہ کے مالک بن گئے، بیٹیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ مذکورہ بالا حکم زندگی میں تقسیم کرنے والی جائیداد کے بارے میں ہے، البتہ جو جائیداد تقسیم نہیں کی تھی، اس میں والد کے مرنے کے بعد تمام شرعی ورثاء اپنے حصص کے بقدر حقدار ہوں گے۔
نوٹ: پانچوں بیٹے اگر مناسب سمجھیں تو والد کو اس غیر منصفانہ تقسیم کے گناہ سے بچانے کے لیے اپنے اپنے حصے سے اپنی بہنوں کو بھی کچھ دے کر راضی کرلیں، تاکہ ان کے والد کو آخرت میں پریشانی نہ ہو۔
۲) چونکہ مرحومہ بیوی کو اپنے والد کی میراث میں سے ملنے والے حصہ میں شوہر کی مکمل ملکیت نہیں تھی، بلکہ دیگر ورثاء بھی اس میں شامل تھے، اس لیے شوہر کو اپنی بیوی کی میراث میں سے صرف اپنے حصے کے بقدر تو ھبہ کرنے کا حق حاصل تھا، بیٹیوں کے حصے کا ھبہ کرنے کا حق حاصل نہیں تھا، اس لیے بیٹیوں کے حصے کا ھبہ تام نہیں ہوا، اور وہ بدستور بیٹیوں کی ہی ملکیت ہے، لہذا بیٹوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بہنوں کا حصہ واپس کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (كتاب الوقف، 444/4، ط: سعيد)
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل".

مجلة الأحكام العدلية: (230/1)
"كل يتصرف في ملكه كيف ما شاء".

الھندیة: (378/4، ط: رشیدیة)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

الھندیة: (كتاب الهبة، 374/4، ط: دار الفکر)
"ومنها أن يكون مملوكا للواهب فلا تجوز هبة مال الغير بغير إذنه لاستحالة تمليك ما ليس بمملوك للواهب."

الدر المختار: (كتاب الغصب، 200/6، ط: دار الفکر)
"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته۔"

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 286 Aug 22, 2023
walik ka apni or marhoma biwi ko miras / miraas me / mein milne wali zameen beto / beton me / mein taqseem kardena

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.