سوال:
فائنانس لیا ہے اور اس کی ذمہ داری زبانی کلامی اس کی اہلیہ لیتی ہے کہ اللہ کے ہاں میں اس قرض کی ذمہ دار ہوں اور وہ شخص فوت ہو جاتا ہے، اب اللہ کے ہاں میاں یا بیوی میں سے کون ذمہ دار ہے؟
تنقیح:
محترم آپ کا سوال واضح نہیں ہے، "اللہ تعالیٰ کے ہاں ذمہ داری لینے" سے کیا مراد ہے؟ کیا شوہر کی زندگی یا اس کی موت کے بعد بینک کو قرض ادا کرنے کی ذمہ داری مراد ہے؟ یا بروز قیامت حساب کتاب میں خود کو ذمہ دار ٹہرانا مراد ہے؟
جواب تنقیح : دونوں طرح کی ذمہ داریاں لینا مراد ہے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں بیوی کا اپنے شوہر کے ذمہ واجب الاداء رقم کی ذمہ داری لینا شرعا درست ہے، اور یہ ایک طرح سے وعدہ ہے جسے حتی الامکان پورا کرنا شرعا ضروری ہے، نیز اگر بینک نے اس ذمہ داری کو قبول کیا ہو تو پھر شوہر کی طرف سے ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں بینک اس کی بیوی سے رقم دلانے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (259/3، ط: دار الفكر)
الكفالة بالمال جائزة معلوما كان المال أو مجهولا بأمر المكفول عنه أو بغير أمره، والطالب إن شاء طالب الأصيل، وإن شاء طالب الكفيل كذا في السراجية ولو طالب أحدهما له أن يطالب الآخر وله أن يطالبهما كذا في الهداية.
توثيق الديون: (ص: 82، ط: مكتبه معارف القرآن)
أما الكفالة بالمال، فقد عرفه الفقهاء بقولهم: "ضم ذمة الكفيل إلى ذمة الأصيل". ومعناه على سبيل المثال: أن يكون الدين في ذمة زيد. فيلتزم عمرو أدائه في ذمته، فيضم ذمته إلى ذمة المديون الأصيل، و يحق للدائن أن يطالب أيهما شاء.
توثيق الديون: (ص: 88، ط: مكتبه معارف القرآن)
إن المقرر في فقه الإسلامي أن الكفالة تبرع محض لا يجوز أخذ الأجرة عليه، أما على قول الجمهور فهو التزام فردي كما بينا، فليس عقدا، و أما على قول أبي حنيفة و محمد رحمهما الله تعالى، فهو عقد بين الكفيل و المكفول له، ولكنه عقد تبرع، و ليس عقد معاوضة.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی