سوال:
کیا صرف موسیقی کے اشعار گنگنانا صحیح ہے یا نہیں؟ اور آلات کے ساتھ اگر ہو تو کون سا آلہ ایسا ہے کہ اس کے ساتھ صحیح ہے۔ کچھ لوگ بولتے ہیں کہ ڈف بجا سکتے ہیں۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: ایسے اشعار جو کفر و شرک یا کسی گناہ کے تذکرے پر مشتمل ہوں، یا فحاشی اور نامحرم عورتوں سے عشق پر مشتمل ہوں، ان کا گنگنانا اور سننا بغیر موسیقی کے بھی ناجائز ہے، البتہ ایسے اشعار جو معنیٰ کے اعتبار سے درست ہوں یا وہ حمد و نعت یا حکمت و دانائی کی باتوں پرمشتمل ہوں، ان کو ترنم کے ساتھ بغیر موسیقی کے پڑھنا اور سننا جائز ہے۔
جہاں تک آلاتِ موسیقی کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ ایسے تمام آلات جن میں ساز، باجا یا گھنگھرو وغیرہ ہو، یا ان کو بنایا ہی لہو و لعب کے لیے گیا ہو، جیسے ڈھولک، باجا، گٹار، پیانو اور ستار وغیرہ ایسے آلات ممنوع ہیں۔
جہاں تک دف کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ اس سے ایسا دف مراد ہے جس میں ایک طرف چمڑا ہو اور دوسری طرف خالی ہو، اور اس میں گھنگھرو یا ساز وغیرہ نہ ہو، نیز اس کو موسیقی کے قواعد کے مطابق مخصوص طرز اور سُر کے ساتھ نہ بجایا جائے تو ایسا دف خوشی کے موقع پر یا نکاح کے اعلان کے لیے بجانا درست ہے، لیکن اگر کوئی ایسا دف ہو جس میں ساز یا گھنگھرو وغیرہ ہو، یا اسے موسیقی کے انداز میں بجایا جائے تو اس صورت میں وہ آلاتِ موسیقی میں ہی داخل ہوگا، جس کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 4922، ط: مؤسسة الرسالة)
حدثنا مسدد، حدثنا بشر، عن خالد بن ذكوان عن الربيع بنت معوذ بن عفراء، قالت: جاء رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فدخل علي صبيحة بني بي، فجلس على فراشي كمجلسك مني، فجعلت جويريات يضربن بدف لهن، ويندبن من قتل من آبائي يوم بدر، إلى أن قالت إحداهن: وفينا نبي يعلم ما في الغد. فقال: "دعي هذه، وقولي الذي كنت تقولين".
رد المحتار: (350/6، ط: دار الفكر)
وعن الحسن لا بأس بالدف في العرس ليشتهر. وفي السراجية هذا إذا لم يكن له جلاجل ولم يضرب على هيئة التطرب اه. أقول: وينبغي أن يكون طبل المسحر في رمضان لإيقاظ النائمين للسحور كبوق الحمام تأمل.
العرف الشذي: (357/2، ط: دار التراث العربي)
قوله: (الدف إلخ) الدف ما يكون مجلداً من جانب واحد، وصرح الفقهاء بعدم جواز الدف ذي جلاجل.
امداد الاحكام: (375/4، ط: دار العلوم کرتشي)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی