سوال:
السلام علیکم! مفتی صاحب! ہم اکثر حدیث کے حوالہ سے سنتے رہتے ہیں کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ صحیح حدیث ہے اور کیا اس حدیث کو بیان کرسکتے ہیں؟ براہ کرم اس کے بارے میں وضاحت کردیں۔
جواب: سوال میں مذکور روایت بعض اسناد کے اعتبار سے صحیح ہے اس کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا اسے بیان کیا جاسکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت مختلف طرق سے منقول ہے جن میں سے بعض میں کوئی کلام نہیں ہے، روایت کی تفصیل اور وضاحت حسب ذیل ہے۔
اصل میں اس امت کو راہ راست پر لانے کے لئے اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شخصیت کا انتخاب فرمایا اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو آخری نبی بنا کر نبوت کا دروازہ آپ ہی پر بند فرمایا تو جیسے آپ علیہ السلام کو آخری پیغمبر بنایا اسی طرح آپ علیہ السلام کی امت کو آخر الامم کا لقب ملا، اور آپ پر نازل کردہ شریعت کو قیامت تک آنے والوں کے لئے مشعلِ ہدایت بنایا، لہذا آپ علیہ السلام کی تعلیمات اور ارشادات کو بعد میں آنے والے لوگوں تک پہنچانا اس امت کی ذمہ داری بنا دی گئی۔ اور ظاہر ہے کہ جس طرح ہر فن کے اپنے ماہرین ہوتے ہیں جن سے اس سلسلے میں رجوع کیا جاتا ہے، اسی طرح احکام ومسائل کا سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں اور نہ ہر انسان کو ان کے بارے میں علم حاصل کرنے کی فرصت اور موقع مل پاتا ہے، کیونکہ اگر ہر شخص اس میں مشغول ہو جائے تو دنیا کا نظام معطل ہوجائے گا، اس لئے ان کے بارے میں علم حاصل کرنے اور لوگوں تک پہنچانے اور ان کو سمجھنانے کے لئے اللہ تعالی نے علم کو لازم کیا اور اس کے حصول کے لیے فضائل ذکر فرمائے، اب ان میں ایک خاص حصہ ہوتا ہے جو اسے حاصل کرکے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔
انہی کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی روایات منقول ہیں جن میں سے سوال میں پوچھی گئی روایت ایک طویل روایت کا حصہ ہے جو حضرت ابودر داء رضی اللہ عنہ کی سند سے محدثین نے اپنی تصانیف میں نقل کیا ہے، ذیل میں اس کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
"حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ ، نَا عَبْدُ اللهِ بْنُ دَاوُدَ. قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ يُحَدِّثُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: «كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، إِنِّي جِئْتُكَ مِنْ مَدِينَةِ الرَّسُولِ صلى الله عليه وسلم لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم، مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا، سَلَكَ اللهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ.
وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ"».(۱)
کثیر بن قیس رحمہ اللہ فرماتے کہ میں دمشق کی ایک مسجد میں حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اسی دوران ایک شخص آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے پتہ چلا کہ آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک روایت ہے آپ اسے بیان کرتے ہیں، فقط اس کے سننے کے لئے میں مدینہ منورہ سے سفر کرکے آیا ہوں۔ جب حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے اس کے علمی شوق وذوق کو دیکھا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب کوئی طالب علم گھر سے طلب علم کےلئےنکلے تو اس شخص کے کے لئے کئی فضائل ہیں:
1) اللہ تعالی اس علم کی بنیاد پر اس کو جنت میں داخل کرے گا۔
2) اور فرشتے ا س کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں۔
3) فرشتے اور بر ی و بحری حیوانات اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں۔
4) عالم کی فضیلت ایک عام عابد کے مقابلہ ایسی ہے جیسے کہ چودھویں کے چاند کوسارے ستاروں پر فضیلت حاصل ہے۔
5) اور علماء انبیاء کے وارث ہیں اور یہ ان کے علمی وارث ہیں نہ کہ مالی اور جس نے علم حاصل کیا تو اس نے بہت کچھ حاصل کیا۔
یہ روایت امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنے کتاب سنن میں دو سندوں کےساتھ نقل کی ہے، ایک تو مذکورہ بالا روایت میں مذکور ہے اور دوسری سند درجہ ذیل ہے:
"حدَّثنا محمدُ بنُ الوزير الدِّمشقيُّ، حدَّثنا الوليدُ، قال: لقیت شبيبَ ابنَ زریق، فحدَّثني به، عن عثمان بن أبي سَوْدَةَ عن أبي الدَّرداء -بمعناه- يعني عن النبي صلى الله عليه وسلم".
دوسری سند میں کوئی کلام نہیں ہے، یہ روایت صحیح ہے، اس لئے کہ اس میں سارے روات ثقہ ہیں (۲) اور پہلی سند میں اگرچہ بعض راوی متکلم فیہ ہیں، لیکن شواہد و توابع کی وجہ سے وہ بھی حدیث حسن بن جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
۱) السجتاني: أبوداود سليمان بن الأشعث ابن إسحاق الأزدي السجستاني (المتوفى: 275ه) سنن أبي داود، تحقيق: شعيب الأرنؤوط، الناشر: دار الرسالة العالمية، ط: الأولى 1430ه - 2009م، رقم الحديث أول كتاب العلم: باب الحث على طلب العلم، رقم الحديث 3641، 3642، (5/485-487).
۲) ابن رسلان، شهاب الدين أحمد بن الحسين ابن رسلان الرملي الشافعي –رحمه الله-(المتوفى 844ه)، شرح سنن أبي داود، تحقيق: زكوان إسماعيل غبيس، الناشر: جائزة دبي الدولية للقرآن الكريم، وحدة البحوث والدراسات، ط: الأولى 1443ه - 2021م، أول كتاب العلم: باب الحث على طلب العلم، رقم الحديث 3641، 3642 (19/550-560).
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی