سوال:
محترم مفتی صاحب! میری پھوپھو کا نام مبینہ تھا، ان کے دو بچے ہیں جن میں سے بیٹے کا نام محمد یوسف اور بیٹی کا نام پروین ہے۔ میری پھوپھو اور ان کا شوہر محمد یحیی بچوں کے بچپن میں ہی انتقال کر گئے، ان کی پرورش میرے والد محمد مبین نے کی، میری والدہ شہناز نے محمد یوسف کو ایک مرتبہ زیادہ رونے کی وجہ سے اپنا دوده بھی پلایا تھا۔ اس طریقے سے وہ ہمارا دودھ شریک بھائی ہے، محمد یوسف اور پروین کی پرورش کے بعد ان کی شادی میرے والد صاحب نے کی ہے، محمد یوسف کی شادی میں نکاح نامہ میں حق مہر کے بعد لڑکی کے نام تین تولے زیور لکھا گیا، شادی کے کچھ عرصے بعد محمد یوسف ہم سے الگ ہو گیا۔ میرے والد صاحب نے اسے بہت سمجھایا کہ تیرے اوپر میرا حق ہے، میں نے تجھے پالا ہے، مجھے چھوڑ کرنہ جا، لیکن وہ نہ مانا، جاتے وقت میری بھابھی انعم (زوجہ محمد یوسف) اپنا زیور ساتھ لے کرنہیں گئی۔ میرے خالو محمد اسحاق نے میرے والد محمد مبین سے یہ کہا کہ آپ رشتہ داروں کو یہ کہہ دو کہ وہ زیور ساتھ لے گئے تھی، میرے والد نے ایسا ہی کیا، کچھ عرصے بعد وہ زیور بیچ دیا جو غاليا ستائیس ہزار 27000 روپے کی مالیت کا تھا اور اس کے پیسے استعمال میں کرلیے۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہم شادی کے لیے کراچی گئے، وہاں میری والدہ اور میری بہن کا زیور ڈاکوؤں نے لوٹ لیا، وہاں سے آنے کے بعد میری بہن نے میری والدہ کو کہا کہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا زیور اس لیے گیا کہ ہم نے انعم کا زیور استعمال کیا ہے۔ میری والدہ کو پچھتاوا ہوا، انہوں نے جاکے میری بھابھی انعم سے معافی مانگی کہ مجھے معاف کردو میں نے زیور استعمال کر لیا ہے، اس پرمیری بھابھی نے کہا کہ امی آپ معافی کیوں مانگ رہی ہیں، میں کچھ کہہ رہی ہوں کیا؟ میرے والد صاحب کو انتقال ہوئے چار سال ہوچکے ہیں۔ اب میرا دورھ شریک بھائی یوسف آکر ہم سے زیور کا یا اتنی مالیت کا مطالبہ کررہا ہے اور ساتھ میں میری بھابھی انکار کر رہی ہیں کہ آپ کی والدہ نے مجھ سے معافی نہیں مانگی، جبکہ اس تمام واقعہ کی گواہی یوسف کی اپنی بہن پروین نے دی ہے کہ اس کی شادی سے پہلے ہی وہ زیور بیچ دیا گیا تھا، اب کیا ہم پر اس صورت میں وہ سونا یا اس کی مالیت دینا لازم ہے؟ اگر لازم ہے کہ تو کس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟
تنقيح:
محترم اس سوال کے جواب کے لیے درج ذیل امور کی وضاحت درکار ہے:
1: کیا آپ کی والدہ کے نزدیک آپ کی بھابھی نے یہ زیور ان کو معاف کردیا تھا کہ وہ زیور معاف کر رہی ہے، اور واپس نہیں لے گی؟
2: اگر آپ کی بھابھی اس معافی کی بات سے انکار کر رہی ہیں تو کیا آپ کی والدہ کے پاس اس معافی پر کوئی گواہ ہے؟
اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
1)جی میری والدہ کے نزدیک میری بھابھی نے زیور معاف کر دیا تھا پر یہ نہیں کہا تھا کہ میں زیور معاف کرتی ہوں بلکہ یہ کہاں تھا کہ امی کوئی بات نہیں اور نہ ہی یہ کہاں تھا کہ میں واپس نہیں لوں گی.
2) میری والدہ معافی مانگنے اکیلے ہی گئی تھی اس لیے معافی پر میری والدہ کے پاس کوئی گواہ نہیں ہے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں محمد یوسف اور اس کی بیوی کا زیور آپ کے والدین کے پاس امانت کے طور پر موجود تھا، جس کو اصل مالکان کے مطالبے پر ان کے حوالے کرنا ضروری تھا، لیکن آپ کے گھر والوں نے جب اس زیور کو غلط بیانی کرکے ان كی اجازت کے بغیر بیچ دیا تو شرعا ایسا کرنا خیانت اور غصب کے زمرے میں داخل ہوگیا، جس کے نتیجے میں وہ اصل زیور ہی آپ کے والدین کے ذمہ میں لازم اور مضمون ہوگیا، لہٰذا ان پر لازم ہے کہ اصل بیچے گئے زیور کی صفات کا حامل اور اتنے ہی وزن کا زیور انہیں واپس کریں۔
جہاں تک آپ کی بھابھی کی طرف سے زیور کی معافی کا تعلق ہے تو اگرچہ آپ کی والدہ کے نزدیک انہوں نے زیور معاف کردیا تھا، لیکن صرف اس طرح کہنے سے کہ "امی کوئی بات نہیں" زیور معاف نہیں ہوتا، لہٰذا جب تک آپ کی بھابھی زیور کو صراحتا معاف نہ کرے اس وقت تک زیور کو واپس کرنا ہی لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 58)
إِنَّ ٱللَّهَ يَأۡمُرُكُمۡ أَن تُؤَدُّواْ ٱلۡأَمَٰنَٰتِ إِلَىٰٓ أَهۡلِهَا ... إلخ
رد المحتار: (516/4، ط: دار الفكر)
وفيه أيضا أن ضمان المثليات بالمثل لا بالقيمة.
مجمع الضمانات لأبي محمد غانم بن محمد البغدادي الحنفي: (ص: 84، ط: دار الكتاب الإسلامي)
طلب الوديعة صاحبها فحبسها عنه وهو يقدر على تسليمها ضمنها من الهداية.
و فيه أيضا: (ص: 86، ط: دار الکتاب الإسلامي)
طلب وديعة فجحد وقال: لم تدعني يكون ضامنا.
و فيه أيضا: (ص: 125، ط: دار الکتاب الإسلامي)
ولو قال: كل إنسان تناول من مالي فهو له حلال قال محمد بن سلمة: لا يجوز، وإن تناول ضمن.
وقال أبو نصر محمد بن سلام هو جائز وأبو نصر جعل هذا إباحة، والإباحة للمجهول جائزة ومحمد بن سلمة جعله إبراء عما تناوله والإبراء للمجهول باطل، والفتوى على قول أبي نصر، ولو قال لآخر: جميع ما تأكل من مالي فقد جعلتك في حل منه يكون الأكل حلالا في قولهم جميعا، ولو قال: جميع ما تأكل من مالي فقد أبرأتك ذكر عن بعضهم: إنه لا يصح هذا الإبراء.
رجل قال لآخر: أنت في حل مما أكلت من مالي أو أخذت أو أعطيت حل له الأكل، ولا يحل له الأخذ والإعطاء.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی