عنوان: مسجد کی خرید و فروخت اور اس کی چھت پر رہائش کا حکم(11048-No)

سوال: ہمارے دادا مرحوم نے ایک پلاٹ تعمیراتی مقاصد کے لیے خریدا تھا،لیکن ان کے انتقال کے بعد چچاؤں نے اپنے والد کے نام صدقہ جاریہ کے لیے مذکورہ پلاٹ پر مسجد تعمیر کی، جس کے اخراجات تمام بھائیوں نے مشترکہ طور پر بغیر کسی چندہ کے از خود ادا کیے۔ اب مسجد چونکہ تعمیر ہوچکی ہے، اس میں باقاعدہ پنج وقتہ نمازیں، جمعہ کی نماز اور عیدین کی نمازیں بھی ادا کی جاتی ہیں اور ساتھ ہی مسجد کی چھت پر عام رہائش بھی رکھی ہوئی ہے۔ اب وہ اس مسجد کو کسی مذہبی ادارے کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ خرید و فروخت درست ہے؟
تنقیح:
اس سوال کے جواب کیلئے یہ وضاحت درکار ہے کہ آپ کے دادا مرحوم کے ورثاء نے اس زمین پر مسجد بنانے کے بعد وقف کردیا تھا یا نہیں؟ یا وقف کئے بغیر صرف لوگوں کیلئے نماز پڑھنے کی خاطر مصلیٰ بنایا تھا؟
جواب تنقیح:
مسجد بنانے کے بعد اسے وقف کردیا تھا۔
تنقیح 2:
دادا کے انتقال کے وقت کون کون سے ورثاء موجود تھے؟ اور کیا سب عاقل بالغ تھے؟نیز جب ورثاء (چچاؤں) نے مسجد تعمیر کی تھی تو تعمیر اور وقف کرتے وقت مسجد کے اوپر اپنے استعمال کیلئے رہائشی گھر بنانے کی شرط رکھی تھی، یا بغیر شرط کے ویسے ہی گھر بنا کر اس میں رہائش اختیار کرنا شروع کردی تھی؟ان امور کی وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
دادا کے انتقال کے وقت ورثاء میں ان کی اہلیہ (دادی) اور نو بیٹے (بشمول میرے والد کے) اور دو بیٹیاں تھیں، کل یہی اولاد تھی اور سب عاقل بالغ اور عیالدار تھے اور سب کی اجازت سے مسجد بنائی گئی تھی۔ (اب دادی اور ایک چچا کا انتقال ہوچکا ہے)
مسجد بناتے وقت صرف مسجد ہی کی نیت و ارادہ تھا، کسی کی بھی نہ رہائش کی نیت تھی اور ناہی باقاعدہ مسجد کے اوپر رہائش گاہ بنائی گئی تھی، البتہ بقول ورثاء (چچاؤں اور پھوپھیوں) کے؛ مسجد کو وقف نہیں کیا تھا کیونکہ یہ ذاتی پیسوں سے بنائی تھی۔ بعد میں بھی رہائش کا خیال کسی کو نہیں آیا سوائے مرحوم کے سب سے بڑے بیٹے کے، انہوں نے اپنا مکان فروخت کرنے کے باعث عارضی طور پر مسجد کی چھت پر کچھ کمرے، باتھ روم اور کچن وغیرہ بنوائے اور کہا تھا کہ، میں اپنا مکان خریدنے تک چند دنوں کے لیے یہاں رہائش پذیر ہوا ہوں اور پھر بعد میں وہ کہیں اور منتقل ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد دوسرے بھائیوں نے مستقل رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ اور اب سب سے بڑے بھائی ہی کے کہنے پر سب نے (سوائے میرے والد کے) مسجد فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جواب: واضح رہے کہ جب اپنی کسی مملوکہ جگہ میں مسجد بنا کر اس جگہ کو اپنی ملکیت سے جدا کرکے اس کا راستہ عام راستے کی طرف عام نمازیوں کے لیے کھول دیا جائے، اور اس میں ایک مرتبہ اذان اور جماعت ہوجائے تو یہ جگہ شرعی مسجد بن کر وقف ہوجاتی ہے، اور واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید و فروخت، ہبہ (Gift) وغیرہ جائز نہیں ہوتا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں جب آپ کے دادا کے انتقال کے بعد تمام ورثاء نے اپنی رضامندی سے اس پلاٹ پر مسجد تعمیر کرکے عام نمازیوں کیلئے کھول دی تھی، اور اس میں باقاعدہ پانچ وقت کی نمازیں ادا ہونا شروع ہوگئیں تو یہ وقف ہوگئی ہے، اب اس کو بیچنا جائز نہیں ہے۔
نیز مسجد کی چھت بھی شرعاً مسجد کے حکم میں ہے، لہٰذا مسجد کی چھت پر رہائشی گھر بنانا اور اس میں رہائش اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الكريم: [البقرة، الآیۃ : 187]
{وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ }

مختصر القدوري: (ص:128،ط: دار الكتب العلمية)
وإذا بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن للناس بالصلاة فيه فإذا صلى فيه واحد زال ملكه عنه عند أبي حنيفة ومحمد وقال أبو يوسف: يزول ملكه عنه بقوله: جعلته مسجدا۔

الفتاوی الھندیۃ: (350/2، ط: دار الفکر)
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية۔

بدائع الصنائع: (328/5، دار الکتب العلمیة)
"الوقف إخراج المال عن الملک علی وجه الصدقة، فلایصح بدون التسلیم کسائر التصرفات".

بحوث في قضايا فقهية معاصرة- القاضي محمد تقي العثماني: (268/1)
والثاني: ما اتخذوه مسجدا شرعيا، وجعلوا أرضه وقفا كمسجد، فالحكم في مثل ذلك عند جمهور الفقهاء أن هذا المكان يبقى مسجدا إلى قيام الساعة، ولا يجوز بيعه في حال من الأحوال، ولا يرجع إلى ملك واقفه أبدا، وهذا مذهب مالك، والشافعي، وأبي حنيفة، وأبي يوسف رحمهم الله تعالى

الدر المختار: (1/ 656، ط: سعید)
(و) كره تحريما (الوطء فوقه، والبول والتغوط) لأنه مسجد إلى عنان السماء.

تبيين الحقائق وحاشية الشلبي: (1/ 168، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)
(والوطء فوقه) أي فوق المسجد والبول والتخلي لأن سطح المسجد مسجد إلى عنان السماء ولهذا يصح اقتداء من بسطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث فإذا ثبت أن سطح المسجد من المسجد يحرم مباشرة النساء فيه لقوله تعالى {ولا تباشروهن وأنتم عاكفون في المساجد} [البقرة : 187] ولأن تطهيره من النجاسة واجب لقوله تعالى {أن طهرا بيتي للطائفين والعاكفين والركع السجود} [البقرة : 125] وقال - عليه الصلاة والسلام - «جنبوا مساجدكم صبيانكم» الحديث ، وقال - عليه الصلاة والسلام - «إن المسجد لينزوي من النخامة كما ينزوي الجلد من النار» فإذا كره التنخم فيه مع طهارته فالبول أحرى.

امداد المفتین: (635، ط: دار الاشاعت کراتشی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Print Full Screen Views: 626 Sep 14, 2023
masjid ki kharid wa farokht or us ki chat par barish ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Rights & Etiquette of Mosques

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.