سوال:
کیا احادیث میں شہد کی کسی خاص قسم کے استعمال کو سنت قراردیا گیا ہے؟ نیز کیا فارمی شہد کو بھی سنت سمجھ کر استعمال کیا جاسکتا ہے؟
جواب: جواب سے پہلے دو باتیں سمجھنا ضروری ہے:
1) واضح رہے کہ جو شہد فطری طریقے یعنی مکھی کے ذریعے سے حاصل ہو، خواہ مکھیاں خود درختوں اور پہاڑوں میں جگہ بناکر شہد بنالیں یا کوئی شخص مکھیوں کو کسی جگہ میں محفوظ کرکے ان سے شہد حاصل کرلے، ایسے شہد کو "خالص شہد" کہا جائے گا، چنانچہ قرآن و حدیث میں جہاں شہد کا ذکر آیا ہے، اس سے اسی طریقے سے حاصل کردہ"خالص شہد" مراد ہے، ہاں! شہد کے رنگ اور ذائقہ میں فرق ہونا، اس کے خالص اور غیر خالص ہونے کی علامت نہیں ہے، کیوں کہ یہ فرق موسم اور غذا کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ تفسیر معارف القرآن(364/5) میں ہے:
"رنگ کا اختلاف غذاء اور موسم کے اختلاف کی بناء پر ہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کسی خاص علاقے میں کسی خاص پھل پھول کی کثرت ہو تو اس علاقہ کے شہد میں اس کا اثر اور ذائقہ ضرور ہوتاہے"۔
اسی اختلاف کی وجہ سے شہد کی مختلف اقسام ہوگئی ہیں، جن میں سے بعض اعلیٰ اقسام سمجھی جاتی ہیں اور بعض کمزور سمجھی جاتی ہیں، البتہ جو شہد مکھی کے ذریعے سے حاصل نہ ہو مثلاً: اگر چینی اور گڑ وغیرہ کو کسی خاص عمل سے گذار کر شہد کی شکل دے دی جائے تو وہ "شہد" نہیں کہلائے گا۔
2) جس طرح آج کے زمانہ میں شہد کی فارمنگ ہوتی ہے اور مختلف طریقے اختیار کرکے شہد حاصل کیا جاتا ہے، اسی طرح زمانہ قدیم میں بھی شہد کی مکھیوں کو محفوظ کرکے اس کے ذریعے سے شہد حاصل کیا جاتا تھا، اور اس بات کی تائید قرآن کریم کے ان الفاظ "ومما یعرشون" سے بھی ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ شہد کی پیداوار کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ لوگ مکھیوں کے لئے چھتے بناکر انہیں پکڑ لیں اور اس سے شہد حاصل کرلیں۔
نیز ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی جو "ابوسیّارۃ" رضی اللہ عنہ سے معروف تھے، جناب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ! میرے پاس شہد کی مکھیاں ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (پھر) اس کا (یعنی ان مکھیوں سے حاصل ہونے والے شہد کا) عشر ادا کرلو، انہوں نے عرض کیا کہ آپ اس کی وادی میرے نام کردیں(یعنی اس کی جاگیر میرے لیے خاص کردیں اس طرح میں اس کا مالک بن کر یہاں سے اکیلے ہی شہد حاصل کرتا رہوں گا اور کوئی اور آکر یہاں سے شہد حاصل نہ کرلے تاکہ شہد کی مقدار کم نہ ہو)، چنانچہ آپ ﷺ نے اس کی جاگیر ان کے نام کردی. (سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 1823)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ زمانہ قدیم میں بھی شہد حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ فارمنگ کی جاتی تھی۔
ان دو نکتوں کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ احادیث طیبہ میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پسند تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر شہد استعمال فرمایا کرتے اور اس کے استعمال کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے، البتہ شہد کی کسی خاص قسم کا ذکر احادیث طیبہ میں نہیں ملتا، لہذا مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جو شہد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال فرمایا ہے، وہ خالص شہد ہی ہے اور احادیث مبارکہ میں جس شہد کا ذکر آیا ہے، اس سے خالص شہد ہی مراد ہے، لہذا شہد کی جو بھی قسم (دیسی یا فارمی) سنت کی نیت سے استعمال کی جائے گی، اتباع سنت کا ثواب ضرور ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الصحيح للبخاري: (رقم الحديث: 5431)
عن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ.
صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 5684)
عن أبي سعيد: أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: "أخي يشتكي بطنه، فقال: "اسقه عسلا" ثم أتى الثانية، فقال: "اسقه عسلا" ثم أتاه الثالثة فقال: "اسقه عسلا" ثم أتاه فقال: قد فعلت، فقال: "صدق الله، وكذب بطن أخيك، اسقه عسلا"، فسقاه فبرأ.
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 1600)
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: جاء هلال أحد بني متعان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشور نحل له، وكان سأله أن يحمي له واديا، يقال له: سلبة، فحمى له رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك الوادي، فلما ولي عمر بن الخطاب رضي الله عنه كتب سفيان بن وهب، إلى عمر بن الخطاب يسأله عن ذلك، فكتب عمر رضي الله عنه: «إن أدى إليك ما كان يؤدي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من عشور نحله، فاحم له سلبة، وإلا، فإنما هو ذباب غيث يأكله من يشاء».
معالم السنن شرح سنن أبي داؤد: (2/ 43، المطبعة العلمية۔ حلب)
وقوله حمى له الوادي، معناه أن النحل إنما ترعى من البقل والنبات أنوارها وما رخُص ونعُم منها فإذا حميت مراعيها أقامت فيها وأقبلت تعسِل في الخلايا كثرت منافع أصحابها وإذا شوركت في تلك المراعي نفرت عن تلك المواضع وأمعنت في طلب المرعى فيكون ريعها حينئذٍ أقل.
وقد يحتمل ذلك وجها آخر وهو أن يكون ذلك بأن يحمى لهم الوادي الذي يُعسَّل فيه فلا يترك أحد أن يتعرض للعسل فيشتاره وذلك أن سبيل العسل سبيل المياه والمعادن والصيود وليس لأحد عليها ملك وإنما تملك باليد لمن سبق إليها فإذا حمى له الوادي ومنع الناس منه حتى يجتازه هؤلاء القوم وجب عليهم بحق الحماية إخراج العشر منه، ويدل على صحة هذا التأويل قوله فإنما هو ذباب غيث يأكله من شاء.
سنن ابن ماجه: (رقم الحديث: 1823)
عَنْ أَبِي سَيَّارَةَ الْمُتَعِيُّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ لِي نَحْلًا، قَالَ: "أَدِّ الْعُشْرَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! احْمِهَا لِي، فَحَمَاهَا لِي.
مجموع شروح سنن ابن ماجه للسيوطي وغيره (ص: 131، ط: قديمي كتب خانه)
إن لي نحلا وهو مشهور والمراد ان لي أيضا فيها نحل العسل قوله أدى العشر اثبات الياء فيه لبيان الأصل قوله احمها الى أي اعطها الى الحمى يقال أحميت المكان فهو محمي إذا جعلته حمى وهذا شيء حمي أي محظور لا يقرب منه كذا في المجمع قوله فحماها لي أي اقطعها لي بحيث لا يصل إليها غيري بعد أداء العشر.
الأموال لابن زنجويه (3/ 1088، ط: مركز الملك فيصل للبحوث والدراسات الإسلامية، السعودية)
أخبرنا حميد أنا ابن أبي أويس، حدثني عبد العزيز بن محمد، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن أبي ربيعة، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده،" أن بني شبابة، بطن من فهم، كانوا يؤدون لرسول الله صلى الله عليه وسلم من نحل ألف عليهم , من كل عشر قرب قربة , وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحمي لهم واديين لهم , فلما كان زمان عمر بن الخطاب استعمل على ما هنالك سفيان بن عبد الله الثقفي , فأبوا أن يؤدوا إليه شيئا وقالوا: إنما ذلك شيء كنا نؤديه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكتب سفيان بذلك إلى عمر بن الخطاب، فكتب إليه عمر: إنما النحل ذباب غيث، يسوقه الله رزقا لمن يشاء , فإن أدوا إليك ما كانوا يؤدون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحم لهم وادييهم , وإلا فخل بين الناس وبينهما، فأدوا إليه ما كانوا يؤدون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحمى لهم وادييهم".
تفسير الرازي/ مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (20/ 236، ط: دار إحياء التراث العربي)
واعلم أن النحل نوعان:
النوع الأول: ما يسكن في الجبال والغياض ولا يتعهدها أحد من الناس.
والنوع الثاني: التي تسكن بيوت الناس وتكون في تعهدات الناس، فالأول هو المراد بقوله: أن اتخذي من الجبال بيوتا ومن الشجر. والثاني: هو المراد بقوله: ومما يعرشون وهو خلايا النحل……والصفة الثانية: قوله: مختلف ألوانه والمعنى: أن منه أحمر وأبيض وأصفر.
تفسير القرطبي (10/ 134، ط: دار الکتب المصرية)
قوله تعالى: (أن اتخذي من الجبال بيوتا ومن الشجر) هذا إذا لم يكن لها مليك «3» . (ومما يعرشون) جعل الله بيوت النحل في هذه الثلاثة الأنواع، إما في الجبال وكواها، وإما في متجوف الأشجار وام فيما يعرش ابن آدم من الأجباح.
التفسير المنير للزحيلي: (14/ 167، ط: دار الفكر المعاصر)
ومما يعرشون أي مما يبنيه الناس لك من الأماكن، أي يصنعونه من الخلايا من طين أو خشب أو غيرهما.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص، کراچی