سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص نے شفعہ کے ذریعے گھر لیا ہے، لیکن پیسوں کی ادائیگی میں ٹال مٹول کر رہا ہے تو کیا اس کی وجہ سے شفعہ ساقط ہو سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: وسعت کے باوجود قیمت کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا شرعا جائز نہیں ہے، حدیث مبارکہ میں اسے ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے، البتہ اگر اس نے حق شفعہ استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ گھر خرید لیا ہو، (جیساکہ سوال میں ذکر ہے) تو خریداری مکمل ہوگئی ہے، اب شفعہ ساقط نہیں ہوگا۔ بیچنے والے کو اس سے صرف طے شدہ قیمت کے مطالبہ کا حق حاصل ہے، کسی بھی جائز طریقے سے اپنا حق لیا جا سکتا ہے، نیز اگر خریدار کیلئے قیمت کی ادائیگی مشکل ہو رہی ہو یا وہ ٹال مٹول کر رہا ہو تو ایسی صورت میں باہمی رضامندی سے گھر کی خریداری کا سودا ختم (cancel) کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (کتاب الاستقراض، رقم الحدیث: 2400)
عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ
الفتاوی الهندیة: (8/3، ط: دار الفکر بیروت)
وإذا حصل الإیجاب والقبول لزم البیع، ولا خیار لواحد منهما إلا من عیب أو عدم رؤیة
و فيه أيضًا: (157/3، ط: دار الفکر بیروت)
وشرط صحة الإقالة رضا المتقائلين
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی