عنوان: والدہ کی زندگی تک میراث تقسیم نہ کرنا (11084-No)

سوال: عرض یہ ہے کہ ہمارے والد صاحب کا آج سے آٹھ سال قبل انتقال ہوا، ہم آٹھ بہن بھائی تھے، چنانچہ ہمارے بڑے بھائی نے سب کو والد کے فوت ہو جانے کے بعد بٹھایا اور سب سے وراثت کے بارے میں مشاورت کی، سب نے اس بات کا اظہار کیا کہ جب تک والدہ حیات ہیں، جائیداد تقسیم نہیں کریں گے، اب سال پہلے اس بھائی کا انتقال ہوگیا ہے جو سب بھائیوں میں بڑا تھا اور جس نے سب کی مشاورت سے فیصلہ کیا تھا کہ ماں کی زندگی میں ہم جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ نہیں کریں گے، وفات سے پہلے اس بات کی تحریر بھی لکھواگیا کہ والدہ کی حیات میں میرے بیوی بچوں کو جائیداد کی تقسیم کے مطالبے کا حق نہیں، والدہ کے فوت ہو جانے پر میرا جو حق بنتا ہو وہ میرے بیوی بچوں کو دے دیا جائے، ابھی والدہ حیات ہیں اور بھائی کی بیوی بچوں نے جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ شروع کردیا ہے تو کیا بھائی کی بیوی بچوں کا یہ مطالبہ درست ہے؟ برائے مہربانی آگاہ کیجئے۔

جواب: واضح رہے کہ کسی کے انتقال کے بعد اس کی چیزوں میں اس کے تمام ورثاء کی اپنے اپنے حصوں کے بقدر ملکیت ثابت ہو جاتی ہے۔
عام حالات میں وراثت تقسیم کرنے میں تاخیر کرنے سے منع کیا جاتا ہے، کیونکہ تاخیر سے وراثت تقسیم کرنے سے اکثر اوقات مسائل جنم لے لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ورثاء کی آپس میں لاتعلقیاں اور ناراضگیاں پیدا ہو جاتی ہیں، لیکن اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ کسی مصلحت کی وجہ سے فی الفور میراث تقسیم نہ کرنے پر دل سے رضامند ہوں تو شرعاً اس کی گنجائش ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر تمام ورثاء وراثت تقسیم نہ کرنے پر رضامند تھے تو بڑے بیٹے کی زندگی تک تو اس فیصلہ پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا، البتہ اب چونکہ بڑے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے، لہذا اپنے والد کی میراث سے ملنے والے حصہ میں اس بڑے بیٹے کے شرعی ورثاء (بیوی، بچے، والدہ) کی مشترکہ ملکیت آگئی ہے، اور ان ورثاء میں سے بیوی بچے اپنے حصہ کا مطالبہ بھی کررہے ہیں، اس لیے اب والدہ اور مرحوم کے دیگر بھائیوں پر لازم ہے کہ مرحوم بیٹے کے ورثاء کو ان کا شرعی حصہ دے دیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (كتاب القسمة، 260/6، ط: دار الفکر)
"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم ‌بطلب ‌كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول"

مجلة الأحكام العدلية: (206/1، المادة: 1075، ط: نور محمد)
كل واحد من الشركاء في شركة الملك أجنبي في حصة الآخر ولا يعتبر أحد وكيلا عن الآخر فلذلك لا يجوز تصرف أحدهما في حصة الآخر بدون إذنه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 309 Sep 20, 2023
walida ki zindagi tak miras taqseem na karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.