سوال:
ایک موبائل ایپ ہے جو کہ آن لائن کام کرنے پر مختلف پیکجز کی صورت میں پیسے دیتی ہے، اس ایپ کا نام "جی ٹی ایم" ہے۔ اس میں شامل ہونے کے لیے کمپنی کی طرف سے کچھ اصول و ضوابط ہیں، اس میں مختلف بلاک بنائے گئے ہیں:
1) بلاک نمبر 1 میں بندہ پانچ ہزار روپے انویسٹ کرتا ہے، اس پر روزانہ اسے پانچ ٹاسک دیئے جاتے ہیں جو کہ مکمل کرنے پر اسے دو سو روپے روزانہ ملتے ہیں، اور یہ روپے ایک ہفتہ بعد اس کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
۲) بلاک نمبر 2 میں پندرہ ہزار روپے انویسٹ کرنے ہوتے ہیں جس پر اسے روزانہ دس ٹاسک دیئے جاتے ہیں جن کو مکمل کرنے پر اسے چھ سو روپے ملتے ہیں، اسی طرح آگے جتنے پیسے زیادہ انویسٹ کریں گے اتنے ہی ٹاسک ملتے ہیں جن کو مکمل کرنے پر پیسے ملتے ہیں، ٹاسک اس طرح ہوتے ہیں کہ مختلف وڈیوز ہوتی ہیں زیادہ تر کچن کے متعلق مختلف کھانے پکانے کے بارے میں اور ورزش کے متعلق کھیلوں کے متعلق ہوتی ہیں، ان وڈیوز کو لائک کرنا ہوتا ہے اور اسکرین شاٹ لے کر اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے، اگر کسی دن بندہ مندرجہ بالا ورک نہ کرے تو اس دن پیسے نہیں ملتے ہیں اور انٹری فیس جو جمع کروائی جاتی ہے، وہ بھی واپس نہیں ہوتی، اس کے علاوہ اگر بندہ کسی اور بندے کو ایڈ کرواتا ہے، مثلاً : زید نے بکر کو ایڈ کروایا تو پندرہ ہزار جو انٹری فیس بکر جمع کروائے گا، اس پر زید کو پندرہ سو روپے ملیں گے اور روزانہ کے بکر کے کام کرنے پر زید کو تیس روپے ملیں گے اور آگے بکر اگر عمر کو ایڈ کرواتا ہے تو بکر کو پندرہ سو اور زید کو ساڑھے سات سو ملتے ہیں اور ایپ میں جع شدہ رقم ایک ہفتے بعد جب اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرتے ہیں تو دس فیصد کمپنی کاٹ لیتی ہے۔ براہ کرم اس پر رہنمائی فرمائیں، بہت سے احباب اس انویسٹمنٹ میں حصہ لے چکے ہیں اور کچھ لے رہے ہیں۔
جواب: ہماری معلومات کی حد تک جی ٹی ایم (GTM) ایڈورٹائزمنٹ کی سروسز فراہم کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے، جس کے تحت یوٹیوب کے مختلف چینلز اور ویڈیوز کی تشہیر کرائی جاتی ہے، اس کے عوض اپنے چینلز کی تشہیر کرانے والے لوگوں سے اجرت وصول کی جاتی ہے۔ اس کمپنی کے ساتھ کام کرنے والے افراد سے یہی کام (چینلز اور ویڈیوز دیکھنا اور لائک) کروا کر اس کے عوض انہیں اجرت دی جاتی ہے، اس کے طریقہ کار میں درج ذیل شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں:
1) کمپنی کی طرف سے شروع میں انویسٹمنٹ کے نام سے مخصوص رقم لی جاتی ہے، جبکہ یہاں ایسا کوئی کاروبار نہیں ہوتا۔ جو کام (task) دیا جاتا ہے، اس کی الگ سے اجرت دی جاتی ہے، لہذا انویسٹمنٹ کے نام سے لی جانے والی رقم بغیر کسی چیز کے عوض کے طور پر لی جارہی ہے، اگر یہ رقم سیکیورٹی ڈپازٹ کے طور پر نہیں لی جاتی اور بعد میں واپس نہیں کی جاتی، تو یہ بظاہر رشوت کے حکم میں داخل ہے۔
2) ان ویڈیوز میں بہت سی غیر شرعی امور مثلا ناچ گانے، موسیقی اور خواتین کے ویڈوز/تصاویر وغیرہ شامل ہوتی ہیں، جنہیں دیکھنا، لائک کرنا اور اس کی تشہیر و ترویج (promote) کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔
3) مصنوعی طریقے سے چینلز اور ویڈیوز کی ریٹنگ بڑھائی جاتی ہے، جس سے عام لوگوں کو دھوکا لگنے کا اندیشہ ہے۔
4) محض ویڈیوز لائک کرنا سبسکرائب کرنا کوئی ایسا مقصودی کام نہیں ہے کہ جس کے عوض اجرت لی جا جاسکے۔
5) آگے ممبرز بڑھانے کی صورت میں کمپنی کی طرف سے جو بونس دیا جاتا ہے، وہ انہی غلط کاموں کی تشہیر و ترویج کا معاوضہ ہے، اس وجہ سے درست نہیں ہے۔
لہذا اوپر ذکر کی گئی شرعی خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مذکورہ ایپ (App) کے ذریعے پیسے کمانا شرعا درست نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، اس کی بجائے کوئی اور جائز ذریعہ آمدن اختیار کرنا چاہئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شعب الإيمان: (84/2، ط: دار الكتب العلمية)
عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم أيّ الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور
رد المحتار: (باب الإجارۃ الفاسدہ، 63/6، ط: سعید)
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام
الدر المختار مع رد المحتار: (4/6، ط: دار الفکر)
(هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض).
(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی