عنوان: داڑھی اور بالوں کےخضاب کے احکام(1109-No)

سوال: مفتی صاحب ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ، عرض یہ ہے کہ جیسا کہ کچھ احادیث میں داڑھی کو رنگنے کا حکم ہے،
(1) داڑھی کو رنگوں یہودیوں کی مشابہت سے بچو۔ (2.) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ کے والد کے سفید بالوں کو رنگنے کا حکم دیا. ان احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے سفید داڑھی کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: خالص سیاہ رنگ کے علاوه دوسرے رنگوں کا خضاب کرنا مستحب ہے اور سرخ خضاب خالص مہندی کا یا کچھ سیاہی مائل، جس میں "کتم" شامل کیا جاتا ہے، مسنون ہے۔
بخاری شریف میں ہے کہ
"عن عثمان بن عبداللہ بن وھب قال دخلت علی ام سلمة فاخرجت الینا شعرا من شعر النبیﷺ مخصوبا۔
ترجمہ
عثمان بن عبد اللہ بن وھب بيان كرتے ہيں كہ ہم ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بال نكالا جو سرخ رنگ كے خضاب سے رنگا ہوا تھا "
(باب مایذکر فی الشیب، حدیث نمبر 5897)
اسی وجہ سے علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مردوں کے داڑھی اور بالوں کا خضاب کرنا مستحب ہے۔
سیاہ خضاب
سیاہ خضاب لگانے کی تین صورتیں ہیں:
پہلی صورت
مجاہد اور غازی کے لئے بوقت جہاد سیاہ خضاب لگانا تاکہ دشمن پر رعب ظاہر ہو، یہ صورت باتفاق ائمہ جائز ہے۔
دوسری صورت
کسی کو دھوکہ دینے کے لئے سیاہ خضاب کرنا، جیسے مرد کا عورت یا عورت کا مرد کو دھوکہ دینا اور اپنے آپ کو جوان ظاہر کرنا یا کسی ملازم کا مالک کو دھوکہ دینے کے لئے سیاہ خضاب کرنا، یہ صورت باتفاق ناجائز ہے۔
تیسری صورت
محض تزیین اور خوبصورتی کے لئے سیاہ خضاب کرنا، تاکہ بیوی کو خوش کرے، اس کو بعض ائمہ اگرچہ جائز قرار دیتے ہیں، مگر سیاہ خضاب پر سخت وعید کے پیش نظر فتوی یہ ہے کہ یہ صورت بھی مکروہ تحریمی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحیح مسلم: (1663/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن جابر بن عبد الله، قال: أتي بأبي قحافة يوم فتح مكة ورأسه ولحيته كالثغامة بياضا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «غيروا هذا بشيء، واجتنبوا السواد»

الدر المختار مع رد المحتار: (422/6، ط: دار الفکر)
يستحب للرجل خضاب شعره ولحيته ولو في غير حرب في الأصح، والأصح أنه - عليه الصلاة والسلام - لم يفعله، ويكره بالسواد
قال في الذخيرة: أما الخضاب بالسواد للغزو، ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود بالاتفاق وإن ليزين نفسه للنساء فمكروه، وعليه عامة المشايخ، وبعضهم جوزه بلا كراهة روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها

الھندیۃ: (359/5، ط: دار الفکر)
اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ رحمهم الله تعالى ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه وعليه عامة المشايخ وبعضهم جوز ذلك من غير كراهة وروي عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه قال كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها كذا في الذخيرة.
وعن الإمام أن الخضاب حسن لكن بالحناء والكتم والوسمة وأراد به اللحية وشعر الرأس والخضاب في غير حال الحرب لا بأس به في الأصح كذا في الوجيز للكردري.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1666 Mar 21, 2019
Dhari aur / or balon kae / kay khizab kae / kay ahkam / ehkam, Rulings on beard and hair dyeing

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.