عنوان: والد کا اپنی زندگی میں فیصد کے اعتبار سے لڑکوں میں گھر تقسیم کرنا، نیز ایک وارث کا متروکہ جائیداد کا کرایہ وصول کرنا(11106-No)

سوال: میں ایک مسئلہ کے سلسلے میں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔ یہ مسئلہ جائیداد کی شرعی تقسیم کا ہے۔ ہماری ایک عدد پراپرٹی (مکان) ہے جو KDA کی دستاویزات کی روشنی میں %40 فیصد بڑے بھائی اور بقایا %60 فیصد تین بھائیوں کے نام ہے۔
وراثتی مکان کی دوسری منزل پر محمد شعیب جیلانی (مرحوم) اور ان کی فیملی رہائش پزیر ہے، جبکہ گراؤنڈ فلور پر ایک عدد دکان (کرایہ 70،000 روپے ماہانہ، گھر (کرایہ 40،000روپے ماہانہ) اور پہلی منزل (کرایہ 15،000روپے ) پر ہے۔ جس کا کرایہ شعیب جیلانی (مرحوم) اور اس کی فیملی پچھلے 7-8 سال سے وصول کرتے رہے ہیں، کرایہ کی مد میں آنے والی رقم کا کوئی بھی حصہ کسی دوسرے وارثین کو نہیں دیا گیا۔
اس وقت معاملہ یہ ہے کہ میرے والد، والدہ اور بڑے تین بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے اور بس صرف میں اور میری ایک بہن حیات ہیں۔
مرحومین کے انتقال کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:سب سے پہلے والدہ کا انتقال ہوا، پھر اس کے بعد 2011 میں والد کا انتقال ہوا، پھر والد کے چھ مہینے بعد 2011 میں ہی شکیل کا انتقال ہوا، پھر 2015 میں شاہد کا انتقال ہوا اور سب سے آخر میں 2023 میں شعیب کا انتقال ہوا۔
ورثاء کی تفصیل: والد کے ورثاء میں چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی، شکیل کے ورثاء میں ایک بیوہ ہے، کوئی اولاد نہیں ہے، شاہد کے ورثاء میں بیوہ، دو بیٹیاں ہیں، اور شعیب کے ورثاء میں ایک بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
نوٹ: زبانی تنقیح سے معلوم ہوا کہ مکان والدہ کے نام تھا، لیکن ملکیت والد کی تھی، کیونکہ والد نے اپنے پیسوں سے بنوایا تھا اور والد نے مکان میں رہائش رکھتے ہوئے فیصد کے اعتبار سے لڑکوں کے نام کر دیا تھا اور اسی مکان میں والد کا انتقال ہوا۔ آپ سے درخواست ہے کہ وراثت کی تقسیم کے حوالے سے ہماری رہنمائی فرمادیجیے۔

جواب: واضح رہے کہ جس مکان میں ہبہ کرنے والے کی رہائش موجود ہو، جب تک ہبہ کرنے والا اس مکان سے اپنا سارا سامان لے کر نہ نکل جائے اور مکمل قبضہ نہ دے دے، اس وقت تک وہ مکان ہبہ کرنے والے کی ملیکت میں ہی رہتا ہے اور اس میں ہبہ تام نہیں ہوتا ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں مذکورہ مکان صرف نام کرنے سے والد مرحوم کی ملکیت سے نہیں نکلا، بلکہ والد مرحوم ہی اپنی زندگی کے آخر تک اس مکان کے مالک رہے، لہذا یہ مکان ان کے انتقال کے بعد ان کے تمام شرعی ورثاء میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
چونکہ والد کے انتقال کے بعد ان کی متروکہ جائیداد میں ان کے تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے اس جائیداد میں شریک تھے، اور اس جائیداد کے کرائے میں تمام ورثاء کا حق تھا، لہذا شعیب جیلانی یا ان کی فیملی نے ابھی تک جتنا کرایہ وصول کیا ہے، وہ میراث کی تقسیم کے وقت ان کے حصہ سے منہا کیا جائے گا اور تمام ورثاء میں ان کے شرعی حق کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا یا ان کی فیملی میراث کی تقسیم سے پہلے اتنی رقم ورثاء کو ان کے حصص کے مطابق دے دے۔
مرحومین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو چھتیس ہزار دو سو اٹھاسی (36288) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے اعجاز کو دس ہزار چھ سو آٹھ (10608) حصے، شہناز کو پانچ ہزار تین سو چار (5304)، شکیل کی بیوی کو دو ہزار سولہ (2016) حصے، شاہد کی بیوی کو ایک ہزار دو سو چوبیس (1224) حصے، شاہد کی دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو تین ہزار دو سو چونسٹھ (3264) حصے، شعیب کی بیوی کو ایک ہزار تین سو چھبیس (1326) حصے، دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو تین ہزار چرانوے (3094) حصے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو ایک ہزار پانچ سو سینتالیس (1547) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو اعجاز کو %29.232 فیصد، شہناز کو %14.616 فیصد، شکیل کی بیوی کو %5.555 فیصد، شاہد کی بیوی کو %3.373 فیصد، شاہد کی دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %8.994 فیصد، شعیب کی بیوی کو %3.654 فیصد، دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو %8.526 فیصد اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %4.263 فیصد ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ... الخ

الفتاوى التاتارخانیة: (فیما یجوز من الھبة و ما لا یجوز، نوع منه، 431/14، ط: رشیدیه کوئته)
"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"

الھندیة: (378/4، ط: دار الفکر)
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار،هكذا في الفصول العمادية.

شرح المجلة للأتاسي: (المادۃ: 1073، 14/4، ط: رشیدیة)
الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم.

الدر المختار: (801/6، ط: دار الفکر)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية)....الخ

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 228 Sep 26, 2023
walid ka apni zindagi me feesad k etebar se larko me ghar taqseem karna,neiz aik waris ka matroka jaidad ka karaya wasol karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.