سوال:
نجی اسکولوں کے اخراجات بچوں کی فیس سے پورے کیے جاتے ہیں، اسی طرح جون جولائی میں اسکول کی عمارت کا کرایہ اور اساتذہ کی تنخواہ کی ادائیگی اسی فیس سے کی جاتی ہے، محلے کا مڈل اسکول ہے، واجبی سی فیس ہے، دو ڈھائی سو بچے ہیں۔ سال کے اختتام پر کچھ والدین مئی کے مہینے میں اپنے بچوں کو اسکول سے نکال کر اچھی تعلیم یا کسی اور وجہ سے دوسرے اسکول میں داخلہ کروادیتے ہیں، ایسی صورت میں اسکول کے جون جولائی کے اخراجات کی ادائیگی میں شدید دشواری پیش آتی ہے تو کیا سال کے آخر میں اسکول چھوڑ کر جانے والے بچوں سے جون جولائی کی فیس وصول کرنا جائز ہے، جبکہ نئے تعلیمی سال میں ان کا اس اسکول میں پڑھنے کا ارادہ نہیں ہے؟
جواب: واضح رہے کہ پرائیوٹ اسکولوں کے ساتھ عموماً مکمل تعلیمی سال کا معاہدہ ہوتا ہے، سال کے دوران ہونے والی چھٹیوں کی فیس منہا نہیں کی جاتی ہے، بلکہ چھٹیوں کے ایام کی فیس بھی لے لی جاتی ہے، جس کا عرف اور تعامل بھی ہوچکا ہے، اس بناء پر طلبہ سے دورانِ سال ہونے والی تعطیلات کی فیس لی جاسکتی ہے، لہذا اگر جون جولائی کی تعطیلات تعلیمی سال کے معاہدہ کے دوران ہی آجائیں تو اس کی فیس لی جاسکتی ہے، لیکن اگر کوئی طالب علم جون جولائی سے پہلے ہی ضابطہ کے مطابق اپنا معاہدہ ختم کرکے اسکول چھوڑ چکا ہو تو ایسی صورت میں اس سے بعد والے مہینوں کی فیس لینا شرعاً درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذی: (باب ما ذکر عن رسول اللہ فی الصلح بین الناس، رقم الحدیث: 1352، ط: دار الغرب الاسلامی)
حدثنا كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني عن ابيه عن جده ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحا حرم حلالا او احل حراما والمسلمون على شروطهم إلا شرطا حرم حلالا او احل حراما". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.
شرح المجلة للاتاسی: (492/2، ط: رشیدیة)
المادۃ 425 - الاجیر الخاص یستحق الاجرة اذا کان فی مدة الاجارة حاضرا للعمل و لا یشترط عمله بالفعل.
و فیه ایضا: (670/2، ط: رشیدیة)
قال فی الخانیة: رجل استاجر رجلا لیعلم عبده او ولده الحرفة، فیه روایتان. فان بین لذلك وقتا معلوما سنة او شهرا جازت الاجارة و یستحق المسمی تعلم العبد او لم یتعلم. [و هذا] اذا کان الاستاذ اجیرا خاصا بان اشترط علیه ان لا یعلم فی تلك المدة احدا من غیر من استؤجر لتعلیمه فیصیر المعقود عليه منفعة الاستاذ فی ذلك الوقت فبمجرد حضوره و تهیئة نفسہ للتعلیم یستحق الأجر المسمی حصل التعلیم فعلا او لا.
الدر المختار مع رد المحتار: (372/4، ط: سعید)
وهل يأخذ أيام البطالة كعيد ورمضان لم أره وينبغي إلحاقه ببطالة القاضي. واختلفوا فيها والأصح أنه يأخذ؛ لأنها للاستراحة أشباه من قاعدة العادة محكمة
غمز عيون البصائر: (135/2، ط. دار الکتب العلمية)
ومنها البطالة في المدارس، كأيام الأعياد ويوم عاشوراء، وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صريحةً في كلامهم.
والمسألة على وجهين: فإن كانت مشروطةً لم يسقط من المعلوم شيء، وإلا فينبغي أن يلحق ببطالة القاضي، وقد اختلفوا في أخذ القاضي ما رتب له من بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ في يوم البطالة؛ لأنه يستريح لليوم الثاني، وقيل: لايأخذ. انتهى
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی