سوال:
میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے،والد کے متروکہ گھر کی قیمت تیرہ لاکھ ہے، ورثاء میں بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، دادا اور دادی کا انتقال ہوچکا ہے، ہم سب کا کیا حصہ بنے گا؟
جواب: مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو چوبیس (24) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو تین (3)، بیٹے کو چودہ (14) اور بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اس تقسیم کی رو سے تیرہ لاکھ (1300000) روپوں میں سے بیوہ کو ایک لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو (162500) روپے، بیٹے کو سات لاکھ اٹھاون ہزار تین سو تینتیس روپے اور تینتیس پیسے (758333.33) اور بیٹی کو تین لاکھ اناسی ہزار ایک سو چھیاسٹھ روپے اور چھیاسٹھ پیسے (379166.66) ملیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ۔۔۔ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَٰحِدٍۢ مِّنْهُمَا ٱلسُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُۥ وَلَدٌ ۚ... الخ
و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن ... الخ
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی