عنوان: حکمرانوں کے پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنا (11145-No)

سوال: السلام علیکم! مفتی صاحب! جو روزمرہ سیاستدانوں، ججوں، علماء کرام، ڈاکٹروں جرنیلوں اور حکمرانوں پر پیٹھ پیچھے تنقید کی جاتی ہے، کیا یہ غیبت یا بہتان کے زمرے میں آئے گی؟

جواب: واضح رہے کہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ایک روایت میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو غیبت کی حقیقت اور مطلب سمجھاتے ہوئے فرمایا: " کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کا ایسا ذکر جو (اگر اس کے سامنے کیا جائے تو ) اس کو ناگوار گزرے، کسی نے پوچھا کہ اگر میں اپنے بھائی کے بارے میں جو بات کر رہا ہوں، وہ واقعی اس میں موجود ہو، کیا پھر بھی گناہ ہوگا؟ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اگر وہ بات اس کے اندر موجود ہو تو یہ تم نے اس کی غیبت کی، اور اگر وہ بات اس میں موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا"۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2589)
لہذا کسی مسلمان (خواہ کوئی بھی ہو) کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر اس انداز سے کرنا کہ اس کو پتہ چلنے کے بعد وہ اس پر ناگوار گزرے تو مذکورہ حدیث کی روشنی میں وہ غیبت میں داخل ہوکر ناجائز ہوگا، بلکہ جو بات اس کے بارے میں کہی گئی ہے، اگر وہ اس کے اندر موجود نہ ہو تو یہ اس پر بہتان تراشی ہوگی جو کہ غیبت سے بھی زیادہ سنگین گناہ ہے۔
"یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خیر خواہی یا کسی مضرت اور مفسدہ کے انسداد کے لیے کسی شخص یا گروہ کی واقعی بُرائی دوسروں کے سامنے بیان کرنا ضروری ہو جائے یا اس کے علاوہ ایسے ہی کسی شرعی، اخلاقی یا تمدنی مقصد کا حاصل ہونا اس پر موقوف ہو تو پھر اس شخص یا گروہ کی بُرائی کا بیان کرنا اس غیبت میں داخل نہ ہوگا جو شرعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے، بلکہ بعض حالتوں میں تو یہ کارِ ثواب ہوگا۔ چنانچہ حاکم کے سامنے ظالم کے خلاف گواہی دینا یا کسی پیشہ ور دھوکے باز کی حالت سے لوگوں کو باخبر کرنا تاکہ وہ اس کے دھوکے میں نہ آئیں اور حضرات محدثین کا غیر ثقہ اور غیر عادل راویوں پر جرح کرنا اور دین و شریعت کے محافظ علماء حق کا اہل باطل کی غلطیوں پر لوگوں کو مطلع کرنا یہ سب اسی قبیل سے ہے۔" (معارف الحدیث: 164/2، ط: دار الاشاعت کراچی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح مسلم: (رقم الحديث: 2589، 2001/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن أبي هريرة، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "أتدرون ما الغيبة؟ " قالوا: الله ورسوله أعلم. قال "ذكرك أخاك بما يكره" قيل: أفرأيت إن كان في أخي ما أقول؟ قال "إن كان فيه ما تقول، فقد اغتبته. وإن لم يكن فيه، فقد بهته".

شعب الإيمان للبيهقي: (رقم الحدیث: 7523، 69/6، ط: دار الكتب العلمية)
عن أنس بن مالك قال: نهانا كبراؤنا من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم قال: لاتسبوا امراءكم ولا تغشوهم ولا تعصوهم واتقوا الله واصبروا فإن الأمر إلى قريب.

فتح الباري شرح صحيح البخاري: (472/10، ط: المكتبة السيلفية)
قال العلماء تباح الغيبة في كل غرض صحيح شرعا حيث يتعين طريقا إلى الوصول إليه بها كالتظلم والاستعانة على تغيير المنكر والاستفتاء والمحاكمة والتحذير من الشر ويدخل فيه تجريح الرواة والشهود وإعلام من له ولاية عامة بسيرة من هو تحت يده وجواب الاستشارة في نكاح أو عقد من العقود وكذا من رأى متفقها يتردد إلى مبتدع أو فاسق، ويخاف عليه الاقتداء به، وممن تجوز غيبتهم من يتجاهر بالفسق أو الظلم أو البدعة ومما يدخل في ضابط الغيبة وليس بغيبة ما تقدم تفصيله في باب ما يجوز من ذكر الناس فيستثنى أيضا والله أعلم

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 72 Oct 04, 2023
hukmaran ke peeth piche un ki buraiyan karna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.