سوال:
مفتی صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص قسم کھا کرکہتا ہے کہ موبائل استعمال کرنے میں بدنظری ہوجاتی ہے، وقت بھی ضائع ہو جاتا ہے، اس بنا پر میں موبائل استعمال نہیں کروں گا، لیکن پھر وہ موبائل سے کال کرتا ہے یا ٹارچ وغیرہ جلاتا ہے، اس بنا پر اس کی قسم کا کیا حکم ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر موبائل استعمال نہ کرنے سے قسم کھانے والے کا مقصود یہ تھا کہ بالکل بھی استعمال نہیں کرے گا تو ایسی صورت میں کال کرنے یا ٹارچ استعمال کرنے سے قسم ٹوٹ جائے گی، اور اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔
تاہم اگر استعمال نہ کرنے سے اس کی مراد ایسا استعمال تھا جس سے وقت ضائع ہوتا ہو اور بد نظری ہوتی ہو تو ایسی صورت میں ضروری کال یا بوقتِ ضرورت ٹارچ کے استعمال سے اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی، اور اس پر کفارہ لازم نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الأشباه والنظائر لابن نجيم: (ص: 21، دار الكتب العلمية)
وأما نية تخصيص العام في اليمين فمقبولة ديانة اتفاقا.
رد المحتار: (784/3، ط: دار الفکر)
مطلب نية تخصيص العام تصح ديانة لا قضاء خلافا للخصاف: (قوله نية تخصيص العام تصح ديانة لا قضاء) هذه الجملة بمنزلة التعليل لقوله قبله ولو ضم طعاما أو شرابا أو ثوبا دين لما علمت من أنه إذا ضم ذلك يصير نكرة في سياق الشرط فتعم، والعام تصح فيه نية التخصيص، لكن لا يصدقه القاضي لأنه خلاف الظاهر.
واعلم أن الفعل لا يعم ولا يتنوع كما في تلخيص الجامع لأن العموم للأسماء لا للفعل هو المنقول عن سيبويه كذا في شرحه للفارسي. قلت: ويرد عليه ما مر من مسألة الخروج والمساكنة والشراء إلا أن يقال كما مر إن التنوع هناك للفعل بواسطة مصدره لا أصالة تأمل.
[تنبيه] قيد بالنية لأن تخصيص العام بالعرف يصح ديانة وقضاء أيضا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی