سوال:
میرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک دن ہم نے اپنی بیوی کو صبح اٹھاتے وقت ہم نے دو مرتبہ اٹھایا، اٹھ بھی گئی تھی پھر سو گئی پھر ہمیں تھوڑا سا غصہ آیا اور یوں کہہ دیا کہ صبح تجھ سے بات کرنا میرے لیے حرام ہے۔ مفتیان کرام اس میں جو حرام کا لفظ استعمال ہوا ہے، بار بار دل کے دل کے اندر خیال آ رہا ہےکہ اس سے نکاح تو ختم نہیں ہو گیا؟ آپ حضرات تھوڑا اس مسئلے کا جواب دے کر ہماری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں شوہر کا اپنی بیوی سے یہ کہنا "صبح تجھ سے بات کرنا میرے لیے حرام ہے" شرعاً قسم کے حکم میں ہے، البتہ اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، لہذا اگر شوہر بیوی سے صبح کے وقت بات کرے گا تو قسم توڑنے کی وجہ سےحانث ہوجائے گا اور قسم کا کفّارہ دینا لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل
القرآن الکریم: (المائدة، الایة: 89)
لَا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغۡوِ فِيٓ أَيۡمَٰنِكُمۡ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ ٱلۡأَيۡمَٰنَۖ فَكَفَّٰرَتُهُۥٓ إِطۡعَامُ عَشَرَةِ مَسَٰكِينَ مِنۡ أَوۡسَطِ مَا تُطۡعِمُونَ أَهۡلِيكُمۡ أَوۡ كِسۡوَتُهُمۡ أَوۡ تَحۡرِيرُ رَقَبَةٖۖ فَمَن لَّمۡ يَجِدۡ فَصِيَامُ ثَلَٰثَةِ أَيَّامٖۚ ذَٰلِكَ كَفَّٰرَةُ أَيۡمَٰنِكُمۡ إِذَا حَلَفۡتُمۡۚ وَٱحۡفَظُوٓاْ أَيۡمَٰنَكُمۡۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمۡ ءَايَٰتِهِۦ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ
المحيط البرهاني: (کتاب الأیمان والنذور، الفصل الثاني في الفاظ اليمين، 4/ 202، ط: دار الكتب العلمية)
ومن قال: دخول الدار علي حرام كان يمينا؛ لأنه حرم الحلال على نفسه، وتحريم الحلال يمين عندنا. قال الله تعالى: {يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الك} . (التحريم: 1) ... وفي «العيون» إنه إذا قال: هذا الرغيف حرام علي كان يمينا، وكذلك إذا قال: كلام فلان علي حرام كان يمينا ، فعلى هذا إذا قال بالفارسية: حرام آنست ياتوسبي كغين كان يمينا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی