resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کسی مخصوص جگہ میں قربانی کی نذر ماننے کے بعد وہاں قربانی کرنا متعذر ہونا/ نذر کی ادائیگی کے بجائے فقراء کو کھانا کھلانے کا حکم (23778-No)

سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ! ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کسی نے منت مانی کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو میں غزہ میں قربانی کروں گا، اس کا وہ کام ہوگیا ہے مگر اس وقت غزہ میں قربانی کرنا ممکن سا نہیں ہے تو اب اس کیلئے کیا حکم ہے؟ دوسرا جزئیہ یہ ہیکہ اس نے کہا تھا کہ قربانی کروں گا پھر سوچا بہتر ہے غزہ میں کروں، اب غزہ میں نہیں کرسکتا اور عمان میں حیثیت نہیں ہے تو کیا وہ کھانا کھلا سکتا ہے؟

جواب: 1) واضح رہے کہ اگر کسی شخص نے نذر کو کسی خاص جگہ کے ساتھ متعلّق کیا ہو تو وہ جگہ ذمّہ میں متعیّن اور لازم نہیں ہو جاتی، بلکہ اگر وہ شخص اس جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ بھی نذر پوری کردے تو نذر ادا ہو جاتی ہے۔ اس لیے سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر غزہ کے علاوہ کسی اور جگہ بھی منّت پوری کی جائے تو منّت ادا ہو جائے گی۔

2) اگر نذر کو کسی ایسی بات کے ساتھ معلّق کرے جس کے ہونے کی تمنّا اور خواہش کرتا ہو جیسا کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو روزے رکھوں گا یا صدقہ کروں گا وغیرہ اور وہ کام ہو جائے تو جس عبادت کی نذر مانی ہو وہ پورا کرنا اس پر لازم ہے۔
اور اگر نذر کو کسی ایسے کام پر معلّق کرے جس سے بچنا مقصد ہو اور وہ کام ہوجائے تو اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ جس عبادت کی نذر مانی ہو، وہ ادا کرے، البتہ اس عبادت کے بجائے قسم کا کفّارہ ادا کرنے کی بھی گنجائش ہوتی ہے۔
قسم توڑنے کا کفّارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو صبح شام (دو وقت) پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس مساکین میں سے ہر مسکین کو پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدی جائے، یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیدیا جائے، اور اگر قسم کھانے والا غریب ہے اور مذکورہ امور میں سے کسی پر اس کو استطاعت نہیں ہے تو پھر کفّارہ قسم کی نیت سے مسلسل تین دن تک روزے رکھنے سے بھی قسم کا کفّارہ ادا ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (93/5، ط: دار الكتب العلمية)
وإن كان مقيدا بمكان بأن قال: لله علي أن أصلي ركعتين في موضع كذا، أو أتصدق على فقراء بلد كذا - يجوز أداؤه في غير ذلك المكان عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر ﵀ لا يجوز إلا في المكان المشروط... (ولنا) أن المقصود والمبتغى من النذر هو التقرب إلى الله ﷿، فلا يدخل تحت نذره إلا ما هو قربة، وليس في عين المكان وإنما هو محل أداء القربة فيه، فلم يكن بنفسه قربة فلا يدخل المكان تحت نذره، فلا يتقيد به فكان ذكره والسكوت عنه بمنزلة.

الدر المختار مع رد المحتار: (738/3، ط: دار الفکر)
(ثم إن) المعلق فيه تفصيل فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفي) وجوبا (إن وجد) الشرط (و) إن علقه (بما لم يرده كإن زنيت بفلانة) مثلا فحنث (وفى) بنذره (أو كفر) ليمينه (على المذهب) لأنه نذر بظاهره يمين بمعناه فيخير ضرورة
(قوله ثم إن المعلق إلخ) اعلم أن المذكور في كتب ظاهر الرواية أن المعلق يجب الوفاء به مطلقا: أي سواء كان الشرط مما يراد كونه أي يطلب حصوله كإن شفى الله مريضي أو لا كإن كلمت زيدا أو دخلت الدار فكذا، وهو المسمى عند الشافعية نذر اللجاج وروي عن أبي حنيفة التفصيل المذكور هنا وأنه رجع إليه قبل موته بسبعة أيام وفي الهداية أنه قول محمد وهو الصحيح. اه. ومشى عليه أصحاب المتون كالمختار والمجمع ومختصر النقاية والملتقى وغيرها، وهو مذهب الشافعي، وذكر في الفتح أنه المروي في النوادر وأنه مختار المحققين وقد انعكس الأمر على صاحب البحر، فظن أن هذا لا أصل له في الرواية، وأن رواية النوادر أنه مخير فيهما مطلقا وأن في الخلاصة قال: وبه يفتى وقد علمت أن المروي في النوادر هو التفصيل المذكور، وذكر في النهر أن الذي في الخلاصة هو التعليق بما لا يراد كونه فالإطلاق ممنوع. اه.

الھدایة: (کتاب الایمان، فصل فی الکفارۃ، 461/1)
کفارۃ الیمین عتق رقبۃ یجزیٔ فیھا مایجزیٔ فی الظھار وان شاء کسا عشرۃ مساکین کل واحد ثوبا فما زاد وادناہ ما یجوز فیہ الصلوۃ وان شاء اطعم عشرۃ مساکین ۔الی قولہ۔ فان لم یقدر عی احد الا شیاء الثلثۃ صام ثلثۃ ایام متتابعات۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Ruling of Oath & Vows