سوال:
ہمسایوں کے بیوی بچوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہیں، لیکن ان کے خاوند جب بھی بولتے ہیں، شر پھیلاتے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں ان سے قطع تعلقی کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت نے پڑوسیوں کا خیال رکھنے اور ان کے ساتھ بہترین اخلاقی برتاؤ کرنے کے احکامات دیے ہیں، حتیٰ کہ اگر پڑوسی کافر ہو تو بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے، اس لیے حسبِ استطاعت ان کے ساتھ اچھے سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے، اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر سے کام لینا چاہیے۔ تاہم پوچھی گئی صورت میں اگر ہمسایہ سے بار بار ایذاء پہنچتی ہو، اور آئندہ بھی تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کیا جاسکتا ہے، مثلاً: سلام دعا کی حد تک تعلق رکھا جائے، لیکن بالکل ہی قطع تعلقی کرلینا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 36)
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا o
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني: (رقم الحديث: 935، ط: المكتبة العلمية)
أخبرنا مالك، أخبرنا يحيى بن سعيد، أخبرني أبو بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، أن عمرة حدثته، أنها سمعت عائشة، تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "ما زال جبرئيل يوصيني بالجار حتى ظننت ليورثنه".
الأدب المفرد: (رقم الحديث: 105، ط: دار الصديق)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ، وَأَبِي إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ ذُبِحَتْ لَهُ شَاةٌ، فَجَعَلَ يَقُولُ لِغُلاَمِهِ: أَهْدَيْتَ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ؟ أَهْدَيْتَ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی