سوال:
السلام علیکم، اگر ایک عورت نماز پڑھ رہی ہے اور کمرے میں کوئی چھوٹا بچہ ایسی چیز اٹھاتا ہے یا حرکت کرتا ہے، جس سے اس کے زخمی ہونے کا خطرہ ہو یا وہ چیز (دودھ، تیل، کھانا، گرم چائے وغیرہ) گرنے کا خطرہ ہو یا بجلی کے بٹن میں ہاتھ مار رہا ہو، جبکہ کمرے میں اس وقت بچے کو روکنے والا کوئی بھی موجود نہ ہو تو کیا ایسی صورت میں دورانِ نماز اس بچے کو روکا جا سکتا ہے یا نماز توڑنی یا پوری کرنی چاہیے؟ اسی طرح اگر پانچ سال یا اس سے زائد عمر کا بچہ نمازی کے آگے سے گزرے یا نمازی کے گرد گول گول گھومے تو کیا اسے ہاتھ سے روکا جا سکتا ہے یا نہیں؟ جزاک اللہ خیرا
جواب: ۱) واضح رہے کہ جب گھر یا کمرے میں بچے کو سنبھالنے کے لیے کوئی اور فرد نہ ہو تو نمازی کو چاہیے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے ہی بچے کی حفاظت کے لیے مناسب تدابیر اختیار کر لے تاکہ نماز کے دوران نماز کے خشوع میں خلل واقع نہ ہو، لیکن اس کے باوجود اگر نمازی کو نماز کے دوران اس بات کا خدشہ لاحق ہو جائے کہ بچہ نہ سمجھی میں چارپائی یا سیڑھی وغیرہ سے گر کر زخمی ہو جائے گا یا اسے کرنٹ لگ جائے گا یا وہ ایک درہم (3.0168 گرام چاندی) کی قیمت کے بقدر کوئی چیز، مثلاً: دودھ، تیل، کھانا وغیرہ ضائع کر دے گا تو جان یا قیمتی مال کی حفاظت کی خاطر نمازی کے لیے نماز توڑنے کی شرعاً اجازت ہے، اور اگر نمازی کو بچے کی جان کی ہلاکت کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں اس پر نماز توڑنا شرعاً لازم اور ضروری ہے۔
۲) عورت کو چاہیے کہ دوران نماز اگر اس کے سامنے کوئی گزرے تو تصفیق (دائیں ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر مارنے) کے ذریعے گزرنے والے کو تنبیہ کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (109/1، ط: دار الفكر)
وكذا الأجنبي إذا خاف أن يسقط من سطح أو تحرقه النار أو يغرق في الماء واستغاث بالمصلي وجب عليه قطع الصلاة.
رجل قام إلى الصلاة فسرق منه شيء قيمته درهم له أن يقطع الصلاة ويطلب السارق سواء كانت فريضة أو تطوعا؛ لأن الدرهم مال.
امرأة تصلي ففار قدرها جاز لها قطع الصلاة لإصلاحها ... ولو رأى أعمى عند البئر فخاف عليه أن يقع فيها قطع الصلاة لأجله. كذا في السراج الوهاج.
الدر المختار: (638/1، ط: دار الفکر)
والمرأة تصفق لا ببطن على بطن، ولو صفق أو سبحت لم تفسد وقد تركا السنة تتارخانية.
الدر المختار مع رد المحتار: (654/1، ط: دار الفکر)
ويباح قطعها لنحو قتل حية، وند دابة، وفور قدر، وضياع ما قيمته درهم له أو لغيره... ويجب لإغاثة ملهوف وغريق وحريق، لا لنداء أحد أبويه بلا استغاثة۔
(قوله ويباح قطعها) أي ولو كانت فرضا كما في الإمداد ... (قوله وفور قدر) الظاهر أنه مقيد بما بعده من فوات ما قيمته درهم؛ سواء كان ما في القدر له أو لغيره رحمتي ... (قوله لإغاثة ملهوف) سواء استغاث بالمصلي أو لم يعين أحدا في استغاثته إذا قدر على ذلك، ومثله خوف تردي أعمى في بئر مثلا إذا غلب على ظنه سقوطه إمداد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی