عنوان: گلیوں اور سڑکوں وغیرہ پر کھڑے مانگنے والوں کو کچھ دینے کا حکم(11169-No)

سوال: مفتی صاحب اس بارے میں رہنمائی فرمائیں: (۱) گلی محلہ میں مانگنے والے زیادہ ہوگئے ہیں، انہیں پیسے دینے کا کیا حکم ہے؟
(۲) حلقہ احباب میں کچھ لوگ ہر وقت وقفے وقفے سے پیسے مانگتے رہتے ہیں، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: (1) واضح رہے کہ گلیوں، سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں وغیرہ پر مانگنے والے آج کل عموماً پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کا مانگنا ناجائز ہے، اور نہ ہی ان کو کچھ دینا چاہیے۔
لہذا صورتِ مذکورہ میں گلی، محلے میں کھڑے ایسے پیشہ ور بھکاریوں کو بالکل کچھ نہ دیا جائے، تاہم جس کے بارے میں دل یہ گواہی دے کہ یہ واقعی ضرورت مند ہے، پیشہ ور بھکاری نہیں ہے تو حسبِ استطاعت اس کے ساتھ کچھ تعاون کرنا چاہیے۔
(2) حلقہ احباب میں اگر کوئی ضرورت مند ہو، اور وہ اپنی حاجت اور ضرورت کی وجہ سے وقتاً فوقتاً کچھ پیسے مانگتا ہو اور اس کا یہ مانگنا عادتاً نہ ہو، بلکہ وہ اپنی حاجات اور ضروریات کو پورا کرنے کی حتی الوسع کوشش میں لگا رہتا ہو تو ایسے شخص کی ضرورت اور حاجت کو پورا کرنے کے لیے حسبِ توفیق اس کی مدد کرنی چاہیے، لیکن اگر حالات سے کسی کے بارے میں یہ محسوس ہو کہ یہ بغیر ضرورت کے ویسے مانگتا ہے، اور مانگنا اس کی عادت بن گئی ہے تو اس کی اعانت نہ کی جائے، بلکہ ایسے شخص کو اپنے ہاتھ سے کمانے کی ترغیب دی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح مسلم: (رقم الحديث: 1041، ط: دار إحياء التراث العربي)
حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى. قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
"من سأل الناس أموالهم تكثرا، فإنما يسأل جمرا. فليستقل أو ليستكثر".

و فيه ايضا: (722/2، رقم الحديث: 1044، ط: دار إحياء التراث العربي)
حدثنا يحيى بن يحيى وقتيبة بن سعيد. كلاهما عن حماد بن زيد. قال يحيى: أخبرنا حماد بن زيد عن هارون بن رياب. حدثني كنانة بن نعيم العدوي عن قبيصة بن مخارق الهلالي. قال: تحملت حمالة. فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها. فقال:
"أقم حتى تأتينا الصدقة. فنأمر لك بها". قال: ثم قال: "يا قبيصة! إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك. ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش (أو قال سدادا من عيش). ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه: لقد أصابت فلانا فاقة. فحلت له المسألة. حتى يصيب قواما من عيش (أو قال سدادا من عيش) فما سواهن من المسألة، ياقبيصة! سحتا يأكلها صاحبها سحتا".

بذل المجهود: (523/6، ط: مركز شيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية الهند)
يعني إذا سأل سائل أحدا ينبغي له أن يحسن الظن به وإن جاء على فرس، فإنه يمكن أن يحتاج إلى ركوب الفرس، ومع ذلك تلجئه الحاجة إلى السؤال، ويكون له عائلة، أو يكون تحمل حمالة فلا يسيء الظن به، وهذا لعله باعتبار القرون الأولى، وأما في هذا الزمان فنشاهد كثيرا من الناس اتخذوا السؤال حرفة لهم، ولهم فضول أموال؛ فحينئذ يحرم لهم السؤال، ويحرم على الناس إعطاؤهم، والله أعلم.

الدر المختار مع رد المحتار: (354/2، ط: دار الفكر بيروت)
(ولا) يحل أن (يسأل) من القوت (من له قوت يومه) بالفعل أو بالقوةكالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 375 Oct 10, 2023
galion or sartko vaghaira per khare mangne walo ko kuch dene ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.