سوال:
مفتی صاحب! ایک ایسا علاقہ جس کے باشندگان نہایت پسماندہ زندگی گزار رہے ہیں، یعنی وہ دورِ حاضر میں بجلی، پختہ سڑک اور ہسپتال جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اگر ان باشندگان کے لیے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں اہلِ علاقہ کے افراد پر کچھ رقم مقرر کرکے ایک فنڈ جمع کیا جائے، اور اسی رقم کے ذریعے اپنی پسماندگیوں کا کسی حد تک ازالہ کیا جائے تو اس کی کیا شرعی حیثیت ہوگی؟
بالخصوص اس صورت میں کہ مقررہ رقم تمام اہلِ علاقہ پر لازم ہو، بصورتِ دیگر اگر بعض افراد کی رضامندی سے رقم لی جائے اور بعض کی غربت کو مدّنظر رکھتے ہوئے ان سے رقم نہ لی جائے تو کمیٹی کے قائم نہ رہنے کا اندیشہ ہے۔ مزید یہ کہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی محض عار و شرمندگی سے بچنے کے لیے رقم ادا کریں۔ کیا مذکورہ صورت شرعاً جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو برائے کرم اس کے جائز طریقہ کی رہنمائی فرمائیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں کمیٹی بنا کر فلاحی کاموں کے لیے لوگوں سے زبردستی رقم وصول کرنا یا ہر ایک کو اس کا پابند بنادینا جائز نہیں ہے، اگر کوئی اپنی رضامندی اور خوشی سے رقم دے تو اس سے رقم لے كر فلاحی کاموں میں خرچ کی جاسکتی ہے۔
تاہم اگر تمام باشندگان بخوشی اسے قبول کرلیں، یا اس علاقے میں منتقل ہوتے وقت انہوں نے معاہدہ یا التزام کیا ہو (جیسا کہ عام طور پر رہائشی سوسائٹیز میں رہنے والے لوگ اس کا معاہدہ کرتے ہیں) کہ فلاحی کاموں یا منٹیننس پر آنے والی رقم میں کمیٹی (Union) کے فیصلے کے مطابق حصہ ڈالیں گے تو ایسی صورت میں ان سے رقم وصول کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشكاة المصابيح: (2/ 889، رقم الحديث: 2946، ط: المكتب الإسلامي)
وَعَن أبي حرَّة الرقاشِي عَن عَمه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «أَلا تَظْلِمُوا أَلَا لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَان وَالدَّارَقُطْنِيّ فِي الْمُجْتَبى.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی