سوال:
دکاندار سے سونا اس نیت سے ادھار خریدنا تاکہ ہم اس کو کسی اور پر فروخت کر دیں اور ان پیسوں سے ہم کاروبار کریں اور جو ڈیٹ ہم نے واپس پیسے دینے کے لیے طے کی ہے، ہم اس طے شدہ وقت پر پیسے ادا کریں یا اپنے گھر میں اپنے استعمال کے لیے سونا ادھار خریدیں تو یہ ادھارپر سونا چاندی خریدنا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر فی الوقت آپ کی دکاندار سے باقاعدہ حتمی طور پر بیع ہوجاتی ہے اور رقم کی ادائیگی کے لئے ان کی طرف سے آپ کو مہلت دی جاتی ہے تو آپ ایسی صورت میں خریدے گئے سونے کے مالک بن جاتے ہیں اور اس کی قیمت آپ کے ذمہ قرض ہوجاتی ہے، البتہ شرعاً اس معاملہ کے درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جس مجلس میں یہ عقد کیا جارہا ہو، اسی مجلس میں آپ سونے پر قبضہ کرلیں، اگر آپ نے اسی وقت سونے پر قبضہ نہیں کیا اور مجلس ختم ہوگئی تو یہ معاملہ ناجائز ہوجائے گا، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ خواہ آپ فروخت کی نیت سے سونا ادھار خرید رہے ہوں یا گھریلو استعمال کے لئے سونا ادھار خرید رہے ہوں، دونوں صورتوں میں یہ سودا سونے کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہو اور پیسوں کی ادائیگی کی مدت کا تعین بھی کیا جائے، بصورت دیگر یہ معاملہ درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (217/3، ط: دار الفكر)
ثم فرق بين بيع الدراهم بالدراهم والدنانير بالدنانير وبين بيع الفلوس بالدراهم أو بالدنانير حيث لم يشترط في بيع الفلوس بالدراهم أو بالدنانير قبض البدلين قبل الافتراق ويكتفى بقبض أحد البدلين كذا في المحيط.
فقه البیوع: (722/2، ط: مکتبة معارف القرآن)
أمّا إذا بیعت الفلوسُ باالدراهم، فیکفی قبضُ أحد البدلین في المجلس؛ لأنّه بیعٌ بخلاف الجنس، وبه صرّح الکاسانی في بیع الدرهم أو الدینار بالفلوس، فقال:"ولو لم یوجد القبض إلا من أحد الجانبین، دون الآخر، فافترقا، مضى العقد علی الصّحّة؛ لأن المقبوضَ صار دینا ًبالقبض، فکان إفتراقا عن عین بدین."
بحوث في قضايا فقهية معاصرة: (169/1، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
ولما كانت عملات الدول أجناسا مختلفة جاز بيعها بالتفاضل بالإجماع.......
ولكن جواز النسيئة في تبادل العملات المختلفة يمكن أن يتخذ حيلة لأكل الربا فمثلا إذا أراد المقرض أن يطالب بعشر ربيات على المائة المقرضة فإنه يبيع مئة ربية نسيئة بمقدار من الدولارات التي تساوي مئة وعشر ربيات وسدا لهذا الباب فإنه ينبغي أن يقيد جواز النسيئة في بيع العملات أن يقع ذلك على سعر سوق السائد عند العقد۔
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی