عنوان: سعودیہ عرب میں بھیک مانگنے والوں کو کچھ دینے کا حکم (11185-No)

سوال: میری رہائش ریاض شہر میں ہے، یہاں اچانک سے پاکستان سے آئے ہوئے ایسے افراد کی تعداد بہت بڑھ گئ ہے جو بھیک مانگتے ہیں۔ یہ افراد مرد اور خواتین دونوں ہوتے ہیں اور اکثر کھانے کے ہوٹل یا دکانوں کے سامنے مانگتے نظر آ تے ہیں۔ اکثر معاشی حالات کے خراب ہونے کا بول کر مانگتے ہیں، کچھ علاج کے لئے مانگتے ہیں اور کچھ صرف کھانا یا راشن کا سامان مانگتے ہیں، مگر یہ سب اکثر انہی اعذار کے ساتھ وقتا فوقتاً نظر آتے ہیں۔ بظاہر ان کے پاس اقامہ نہیں ہوتا کہ یہ کوئی کام کرسکیں، وزٹ یا عمرہ ویزا پر آکے واپس نہیں جاتے۔ ان کی مدد کے حوالے سے کیا حکم لاگو ہوتا ہے؟
اس کے برعکس یہاں بنگلہ دیش کے افراد کی کثیر تعداد ہے جو شہر کی صفائی کے ادارے میں کام کرتے ہیں اور پورا دن محنت کرتے ہیں، ان کی تنخواہیں بھی معمولی ہوتی ہیں۔ کیا مانگنے والوں (جن کا حال اوپر بیان کیا گیا) کی مدد کرنا درست ہے، اور کیا ایسے لوگوں کو سختی سے منع کرنا چاہیے؟

جواب: واضح رہے کہ جو لوگ حقیقت میں ضرورت مند اور محتاج نہ ہوں،اور انہوں نے گدا گری کو پیشہ کے طور پر اپنایا ہوا ہو، ان کے لیے بھیک مانگنا ہی ناجائز ہے، اور نہ ہی شرعاً ان کو کچھ دینا چاہیے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں احادیث مبارکہ میں سخت وعید آئی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے:"قیامت کے دن یہ مانگنا ان کے چہروں پر زخم بن کر ظاہر ہوگا"۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 1626)
لہٰذا صورت مذکورہ میں جو لوگ وہاں جاکر بھیک مانگتے ہیں، اور ان کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ یہ فقیر نہیں ہیں، بلکہ پیشہ کے طور پر گدا گری کو اپنائے ہوئے ہیں تو ایسے لوگوں کی مدد نہ کی جائے، بلکہ انہیں پیار ومحبت سے سمجھایا جائے کہ یہ طریقہ ملک وملت کی بدنامی کے ساتھ ساتھ آخرت میں رسوائی کا ذریعہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داؤد: (رقم الحديث: 1626، 68/3، ط: دار الرسالة العالمية)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشٌ، أَوْ خُدُوشٌ، أَوْ كُدُوحٌ فِي وَجْهِهِ ". فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْغِنَى ؟ قَالَ : " خَمْسُونَ دِرْهَمًا، أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ ".

بذل المجهود: (523/6، ط: مركز شيخ أبي الحسن الندوي للبحوث و الدراسات الإسلامية الهند)
يعني إذا سأل سائل أحدا ينبغي له أن يحسن الظن به وإن جاء على فرس، فإنه يمكن أن يحتاج إلى ركوب الفرس، ومع ذلك تلجئه الحاجة إلى السؤال، ويكون له عائلة، أو يكون تحمل حمالة فلا يسيء الظن به، وهذا لعله باعتبار القرون الأولى، وأما في هذا الزمان فنشاهد كثيرا من الناس اتخذوا السؤال حرفة لهم، ولهم فضول أموال؛ فحينئذ يحرم لهم السؤال، ويحرم على الناس إعطاؤهم، والله أعلم.

الدر المختار مع رد المحتار: (354/2، ط: دارالفكر بيروت)
(ولا) يحل أن (يسأل) من القوت (من له قوت يومه) بالفعل أو بالقوةكالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 369 Oct 12, 2023
saudi arabia me bheek mangne walo ko kuch dene ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Miscellaneous

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.