سوال:
ایک شخص کسی سے پانچ لاکھ روپے ادھار لے اور یہ بولے کہ ابھی پانچ لاکھ کا جتنا سونا آتا ہے تو جب بھی قرض واپس کرنا ہو تو واپسی کے وقت مجھے اتنا سونا واپس کردینا، کیا یہ معاملہ جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر معاملہ کرتے وقت شروع میں ہی یہ شرط لگادی جائے کہ پیسے قرض لے کر اس کے بدلے میں اتنی ہی مالیت کا سونا دیا جائے گا تو یہ صورت شرعاً درست نہیں ہے، کیونکہ قرض کا شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جو چیز قرض لی جائے، وہی چیز واپس کی جائے، اس میں کمی زیادتی جائز نہیں ہے، البتہ اگر شروع میں یہ طے نہ کیا جائے کہ قرض رقم کے بدلے سونا دیا جائے گا، بلکہ قرض رقم کے بدلے اتنی رقم ہی واپس کرنا طے ہوجائے، بعد میں اگر کسی وجہ سے رقم کی ادائیگی مشکل ہو تو باہمی رضامندی سے ادائیگی کے وقت اتنی رقم کا جتنا سونا بنتا ہو، واپس کیا جاسکتا ہے۔
نیز اس کے جائز متبادل کے طور پر درج ذیل دو صورتوں میں سے کوئی صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہیں:
1) رقم قرض نہ دی جائے، بلکہ اس رقم کے بدلے میں طے شدہ سونے کی خرید و فروخت کا معاملہ کیا جائے، ایسی صورت میں پیسے نقد دے کر بعد میں مطلوبہ سونا لیا جاسکتا ہے، البتہ ایسی صورت میں باہمی رضامندی سے سونے کی ادائیگی کا مخصوص وقت طے کرنا شرعاً ضروری ہوگا، تاکہ بعد میں کوئی نزاع کی صورت پیش نہ آئے۔
2) رقم قرض دینے کی بجائے اتنی رقم کا سونا خرید کر بطور قرض دیا جائے تو ایسی صورت میں جتنا سونا دیا تھا اتنا ہی واپس لیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح القدير للكمال ابن الهمام: (110/8، ط: دار الفكر)
(لأن الديون تقضى بأمثالها) لا بأعيانها (إذ قبض الدين نفسه) أي قبض نفس الدين (لا يتصور) لأنه وصف ثابت في ذمة من عليه (إلا أنه جعل استيفاء العين حقه من وجه) استثناء من قوله لأن الديون تقضى بأمثالها: يعني أن الديون وإن كانت تقضى بأمثالها لا بأعيانها لما ذكرنا آنفا، إلا أن قبض المثل جعل استيفاء لعين حق الدائن من وجه ولهذا يجبر المديون على الأداء، ولو كان تملكا محضا لما أجبر عليه، وكذا إذا ظفر الدائن بجنس حقه حل له الأخذ.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی