سوال:
میری بیوی کے پاس چھ سال تک پانچ تولہ سونا رہا ہے جو اس کی ملکیت تھا، اس کے بعد اب دو تولہ سونا ہے، کیا اس پر زکوٰۃ واجب ہے؟َ اور جو پچھلے سال گزر چکے ہیں اس کی زکوٰۃ ادا کرنی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سے کم سونا ہو اور نقدی، چاندی، یا سامان تجارت میں سے اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو اس شخص پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، اور اگر اس کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم سونے کے ساتھ چاندی، نقدی، یا سامان تجارت میں سے کچھ ہو، اور وہ سونے کے ساتھ مل کر دونوں کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کی بیوی کے پاس اب صرف دو تولہ سونا ہو، اور اس کے علاوہ مذکورہ دیگر اموال میں سے اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، اور اگر اس کے پاس دیگر اموال میں سے کچھ ہو، اور وہ سونے کے ساتھ مل کر دونوں کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس صورت میں آپ کی بیوی پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔
گزشتہ چھ سالوں کی زکوٰۃ واجب ہونے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر آپ کی بیوی کے پاس گزشتہ چھ سالوں میں پانچ تولہ سونے کے ساتھ دیگر اموال (نقدی، چاندی یا سامان تجارت) میں سے کچھ رہا ہو، اور وہ سونے کے ساتھ مل کر دونوں کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کی برابر تھی تو پھر اس پر گزشتہ چھ سالوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی، اور ان چھ سالوں کی زکوٰۃ کی ادائیگی میں سونے کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔
اورگزشتہ چھ سالوں کی زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے ایک سال کی زکوٰۃ کا حساب لگایا جائے گا، پھر پہلی زکوۃ کی ادائیگی کے بعد جو رقم بچے اور وہ نصاب تک پہنچے تو دوسرے سال اس مال کی زکوٰۃ نکالی جائے گی، اسی طرح دوسرے سال کی زکوة منہا کرنے کے بعد اگر باقی رقم نصاب تک پہنچے تو تیسرے سال اس مال کی زکوة ادا کی جائے گی، اسی طرح مزید تین سالوں کی زکوٰۃ کی ادائیگی کا حساب اسی طریقہ پر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
حاشیة الطحطاوی: (716/1، ط: دار الکتب العلمیة)
ويتراخى وجوب الأداء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم لأن ما دون الخمس من النصاب عفو لا زكاة فيه وكذا فيما زاد بحسابه۔
قوله: "ففيها درهم" هذا إنما يظهر إذا كان الماضي عاما واحدا۔
درر الحکام شرح غرر الاحکام: (181/1، ط: دار إحياء الكتب العربية)
والخلاف في زكاة المال فتعتبر القيمة وقت الأداء في زكاة المال على قولهما وهو الأظهر وقال أبو حنيفة يوم الوجوب كما في البرهان وقال الكمال والخلاف مبني على أن الواجب عندهما جزء من العين وله ولاية منعها إلى القيمة فيعتبر يوم المنع كما في منع رد الوديعة وعنده، الواجب أحدهما ابتداء ولذا يجبر المصدق على قبولها اه.
بدائع الصنائع: (7/2، ط: دار الكتب العلمية)
وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی