سوال:
ایک دینی ادارہ ہے جہاں مستحق طلباء پڑھتے ہیں، اگر وہ ادارہ اپنے متعلقین سے کہہ دے کہ جو بھی ادارے کیلئے زکوۃ لائے گا تو اس کو وصول شدہ زکوۃ کا پانچ فیصد دیا جائے گا۔ کیا اس طرح معاملہ کرنا شرعا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو اس کی متبادل صورت کیا ہوسکتی ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں زکوٰۃ کی رقم سے کمیشن دینا جائز نہیں ہے، بلکہ زکوٰۃ کا پیسہ مدرسہ میں جمع کرانا لازم ہے، نیز کمیشن پر چندہ کرنا اور کرانا ناجائز ہے۔
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ چندہ جمع کرنے والے شخص کے عمل (کام) کی کوئی متعین اجرت طے کر دی جائے، خواہ ماہانہ ہو یا یومیہ اور وہ شخص اس طے شدہ اجرت کے عوض چندہ جمع کرے تو یہ صورت بلاشبہ جائز ہے، لیکن زکوٰۃ کے پیسوں سے تنخواہ دینا جائز نہیں ہے، البتہ زکوۃ کی مد میں جو رقم چندہ کر کے جمع ہوجائے، اس کو مستحق طلبہ سے تملیک کروانے کے بعد اس سے سفیر یا دیگر عملہ کی تنخواہیں دی جا سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (5/6، ط: دار الفكر)
وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
الدر المختار مع رد المحتار: (56/6)
(ولو) (دفع غزلا لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه - صلى الله عليه وسلم - عن قفيز الطحان.
الدر المختار: (356/2)
دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز إلا إذا نص على التعويض.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی