عنوان: دار الاسلام میں ملے ہوئے دفینے کی ملکیت، اس میں سے خمس نکالنے اور اس کے بیچنے کا حکم(11237-No)

سوال: کسی نے لوگوں کے ہاتھوں لالچ اور جھوٹ کی بنیاد پر بہت نقصان کرنے کے بعد مدد کرنے کی درخواست کی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ اگر کسی کو بہت پرانا دفن شدہ خزانہ ملے تو (۱) وہ اس کا کیا کرے، جبکہ خزانہ بھی بہت ہی پرانے زمانے کا ہے۔
۲) اگر ہندو مت کی مورتیاں ہوں یا ان پر تصویر ہو تو کیا ان کو توڑنا یا ان کی شکل بگاڑنا ضروری ہے؟
۳) کیا ان کے مذہب والوں یا کسی اور کو اسی شکل میں قیمتاً بیچ سکتے ہیں، جبکہ اس صورت میں قیمت بہت زیادہ لگتی ہے؟
۴) اگراس خزانے پر قبضہ والا ملکیت کا دعوی کرے تو اس سے اس مال کی خرید و فروخت کا معاملہ کیا جا سکتا ہے؟
۵) اس شخص کی ملکیت جس کا صحیح تعین کرنا ممکن نہیں ہے، اس صورت میں حصہ لینے کے بجائے کیا صرف اجرت یا کمشن لینا زیادہ بہتر یا جائز ہے؟
۶) اگر یہ شخص جو ملکیت کا دعوی کر رہا ہے، خود زکات کا مستحق ہو تو وہ "خمس" کا کل حصہ یا اکثر حصہ خود استعمال میں لا سکتا ہے؟
۷) اس شخص سے وہ مال بیچنے میں مدد کرنے کی اجرت / حصہ / کمشن یا تینوں لینا جائز ہے؟

جواب: واضح رہے کہ دارالاسلام میں اگر کسی مملوکہ زمین (یعنی جو کسی معین شخص کی ملکیت ہو) یا غیر مملوکہ زمین (یعنی جو کسی معین شخص کی ملکیت نہ ہو اور نہ ہی حکومت نے اسے آباد کر کے اسے اپنی ملکیت میں لیا ہو، جیسے: جنگل اور پہاڑ وغیرہ) میں ایسا دفینہ ملے جس پر غیر مسلموں (عیسائیوں، ہندووں وغیرہ) کے نشانات اور علامات (مثلا: صلیب یا بت وغیرہ) بنے ہوں یا اس دفینہ پر مسلمانوں اور کافروں میں سے کسی کے بھی نشانات نہ ہوں جس کی وجہ سے اس کا حال مشتبہ ہو تو زمین کی ان دونوں قسموں کا دفینہ جو شخص بھی دریافت کرے گا، وہ اس کے چار حصوں کا مالک شمار ہوگا اور اس کا خمس (پانچواں حصہ) حکومت کے خزانے ( بیت المال) میں جمع کروانا ہوگا، البتہ اگر فساد زمانہ کی وجہ سے یقین نہ ہو کہ حکومت اس مال کو صحیح مصرف پر خرچ کرے گی تو پھر اس کا مصرف فقراء ومساکین ہیں، خواہ دریافت کرنے والا وہ حصہ (خمس) فقراء ومساکین پر صدقہ کردیا جائے یا کسی مدرسے کے مستحق طلبہ کو دے دیا جائے۔
اور اگر دارالاسلام میں دفینہ کسی ایسی جگہ ملا ہو جو کسی معین فرد کی ملکیت نہ ہو، لیکن حکومت نے اس زمین کو آباد کرکے اپنی ملکیت بنا لیا ہو تو ایسی زمین میں ملنے والا دفینہ سارا کا سارا حکومت کی ملکیت شمار ہوگا، جس میں سے حکومت دفینہ دریافت کرنے والے کو انعام کے طور پر کچھ دینا چاہے تو دے سکتی ہے۔
چونکہ اس دفینے کو پانے والا پہلی دو صورتوں میں اس کے چار حصوں کا مالک بن جاتا ہے، لہذا اگر وہ اس دفینے میں سے اپنے حصے کے بقدر خود یا کسی وکیل کے ذریعہ بیچنا چاہے تو بیچ سکتا ہے اور کسی دوسرے شخص کو اس معاملے میں اجرت کے عوض اس کا وکیل بننا بھی جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن اگر یہ دفینہ مورتی کی شکل میں ہو یا اس پر کسی جاندار کی تصویر بنی ہو تو اسے اس حالت میں بیچنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر اس کی شکل وصورت مٹادی جائے یا اس کو توڑ دیا جائے تو ایسی صورت میں اسے بیچنا جائز ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (322/2، ط: دار الفکر)
(ولو) وجدت (دفين الجاهلية) أي كنزا (خمس) لكونه غنيمة.
والحاصل: أن الكنز يخمس كيف كان والمعدن إن كان ينطبع ..... (وما عليه سمة الإسلام من الكنوز) نقدا أو غيره (فلقطة) سيجيء حكمها (وما عليه سمة الكفر خمس وباقيه للمالك أول الفتح) ولوارثه لو حيا وإلا فلبيت المال على الأوجه وهذا (إن ملكت أرضه وإلا فللواجد) ولو ذميا قنا أنثى لأنهم من أهل الغنيمة.
(قوله: سمة الكفر) كنقش صنم أو اسم ملك من ملوكهم المعروفين بحر (قوله: خمس) أي سواء كان في أرضه أو أرض غيره أو أرض مباحة كفاية قال قاضي خان وهذا بلا خلاف؛ لأن الكنز ليس من أجزاء الدار فأمكن إيجاب الخمس فيه بخلاف المعدن (قوله: وهذا إن ملكت أرضه) الإشارة إلى قوله وباقيه للمالك، وهذا قولهما وظاهر الهداية وغيرها ترجيحه لكن في السراج وقال أبو يوسف: والباقي للواجد كما في أرض غير مملوكة وعليه الفتوى. اه. قلت: وهو حسن في زماننا لعدم انتظام بيت المال بل قال ط: إن الظاهر أن يقال أي على قولهما إن للواجد صرفه حينئذ إلى نفسه إن كان فقيرا كما قالوا في بنت المعتق إنها تقدم عليه ولو رضاعا

الھدایة مع فتح القدیر: (237/2، ط: دار الفكر)
(وإن وجد ركازا) أي كنزا (وجب فيه الخمس) عندهم لما روينا واسم الركاز ينطلق على الكنز لمعنى الركز وهو الإثبات ثم إن كان على ضرب أهل الإسلام كالمكتوب عليه كلمة الشهادة فهو بمنزلة اللقطة وقد عرف حكمها في موضعه، وإن كان على ضرب أهل الجاهلية كالمنقوش عليه الصنم ففيه الخمس على كل حال لما بينا ثم إن وجده في أرض مباحة فأربعة أخماسه للواجد؛ لأنه تم الإحراز منه إذ لا علم به للغانمين فيختص هو به، وإن وجده في أرض مملوكة، فكذا الحكم عند أبي يوسف؛ لأن الاستحقاق بتمام الحيازة وهي منه
(قوله فكذا الحكم عند أبي يوسف) أي الخمس للفقراء وأربعة أخماسه للواجد، سواء كان مالكا للأرض أو لا لأن هذا المال لم يدخل تحت قسمة الغنائم لعدم المعادلة فبقي مباحا فيكون لمن سبقت يده إليه، كما لو وجده في أرض غير مملوكة

فقه البیوع: (306/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
فالقسم الاول: ما وضع لغرض محظور، ومادته مباحة فلا یستعمل فی مباح الا بتکلف او احداث تغییر فیه.... اما الحنفیة والشافعیة فبیع ھذہ الآلات صحیح منعقد عندھم، لانه یمکن استعمالھا فی مباح، ولو بعد تغییرھا، ولکن یکرہ البیع فی حالتھا الموجودة۔ قال الکاسانی رحمه الله: "ويجوز بيع آلات الملاهي من البربط، والطبل، والمزمار، والدف، ونحو ذلك عند أبي حنيفة لكنه يكره وعند أبي يوسف، ومحمد: لا ينعقد بيع هذه الأشياء؛ لأنها آلات معدة للتلهي بها موضوعة للفسق، والفساد فلا تكون أموالا فلا يجوز بيعها ولأبي حنيفة ﵀ أنه يمكن الانتفاع بها شرعا من جهة أخرى بأن تجعل ظروفا لأشياء، ونحو ذلك من المصالح فلا تخرج عن كونها أموالا".
والظاھر ان الکراھة التی ذکرھا الحنفیة فی بیعھا قبل فصلھا تحریمیّة... ومقتضاہ ان لا یطیب الثمن للبائع۔
ویدخل فی ھذا القسم بیع الاصنام والصور المجسّدة الا اذا کسرت وامکن الانتفاع برضاضھا فیجوز بیعھا. والاصل فیه حدیث جابر بن عبد الله ؓ : انه سمع رسول الله ﷺ یقول عام الفتح وھو بمکة: ان اللہ ورسوله حرّم بیع الخمر والمیتة والخنزیر والاصنام.

فتاوی عثمانی: (207/4، ط: مکتبة معارف القرآن)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 605 Oct 23, 2023
darul salam me milay huwe dafinay ki malkiat, us me khums nikalne or us k bechne ka hukum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.