سوال:
عرض یہ ہے کہ میری والدہ کے نام 240 گز کا لیز شدہ پلاٹ ہے جو کہ والد صاحب نے اپنی زندگی میں والدہ کے نام کیا تھا، اس پلاٹ میں پانچ بھائیوں کے ساتھ والدہ بھی رہائش پذیر ہیں۔
میری والدہ چاہتی ہیں کہ اپنی زندگی میں تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو حصہ دے دیا جائے، لیکن بھائی بہنوں کو حصہ نہیں دینا چاہتے، کیونکہ بھائیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے بھی پلاٹ خریدنے کے لیے رقم دی تھی۔ کیا والدہ اس کے باوجود تمام بیٹے اور بیٹیوں کو حصے دے سکتی ہیں؟
تنقیح: والد نے صرف مکان نام کیا تھا یا ملکیت بھی دی تھی؟ نیز جب والد صاحب نے والدہ کو ملکیت دی تھی تو کیا اس وقت والد صاحب کی رہائش اسی گھر میں تھی؟ بیٹوں نے پلاٹ کے خریدنے میں کیا کہہ کر پیسے دیے تھے؟ ان تمام باتوں کی وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جا سکے گا۔ جزاک اللہ خیرا
جواب تنقیح: والد صاحب نے ملکیت دی تھی اور والد صاحب اسی گھر میں رہائش پذیر تھے، بھائیوں رقم نے دیتے ہوئے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔
جواب: واضح رہے کہ شریعت میں کسی چیز کا ہبہ (Gift) درست ہونے کے لیے اس چیز کا مالک بنا کر قبضہ دینا ضروری ہے، ورنہ یہ ہبہ (Gift) تام نہیں ہوتا ہے، اور اسی شخص کی ملکیت میں رہتا ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر والد صاحب نے وہ مکان صرف والدہ کے نام کیا تھا، لیکن انہیں مکمل اختیارات کے ساتھ قبضہ نہیں دیا تھا، بایں معنی کہ وہ اپنی مرضی سے ان کی زندگی میں اس میں تصرف (خرید و فروخت وغیرہ) نہیں کر سکتی تھیں تو ایسی صورت میں یہ مکان بدستور والد صاحب کی زندگی میں ان کی ملکیت میں ہی شمار ہوگا۔
نیز اگر کوئی وارث والد صاحب کے ساتھ مکان خریدنے میں پیسے دیتے وقت کوئی وضاحت نہیں کرے، (نہ ہدیہ کی، نہ قرض کی اور نہ شراکت کی) تو یہ پیسے ہدیہ (گفٹ) سمجھے جاتے ہیں، اور اس کو ان پیسوں کے مطالبے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ مکان صرف نام کرنے سے والد مرحوم کی ملکیت سے نہیں نکلا، بلکہ والد مرحوم ہی اپنی زندگی کے آخر تک اس مکان کے مالک رہے، لہذا یہ مکان ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء (بیوی، بیٹے اور بیٹیوں) میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى التاتارخانیة: (فیما یجوز من الھبة و ما لا یجوز، نوع منه، 431/14، ط: رشیدیه کوئته)
"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"
تنقيح الفتاوى الحامدية: (155/2، ط: دار المعرفة)
والأصل أن من بنى في دار غيره بناء وأنفق في ذلك بأمر صاحبه كان البناء لصاحب الدار وللباني أن يرجع على صاحب الدار بما أنفق ا ه.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی