سوال:
محمد قاسم کا انتقال 1999 میں ہوا، انتقال کے وقت ان کے والدین، نانا اور نانی میں سے کوئی حیات نہیں تھا، ان کی دو بیگمات تھیں، پہلی بیگم کا نام فیاضی بیگم ہے، جن سے چار بیٹیاں (اختری بیگم، حنیفہ بیگم، خاتون بیگم اور اکبری بیگم) اور ایک بیٹا (علی اکبر) ہے، جبکہ دوسری بیوی کا نام خورشیدی بیگم ہے اور ان سے قاسم کی کوئی اولاد نہیں ہے، البتہ خورشیدی بیگم کا پہلے شوہر سے ایک بیٹا ہے۔ پہلی بیگم فیاضی کی وفات 2006 میں ہوئی ہے، جبکہ دوسری بیگم خورشیدی کی وفات 2015 میں ہوئی ہے۔ قاسم اور فیاضی بیگم کے والدین اور بھائی بہنوں میں سے کوئی زندہ نہیں ہیں۔
قاسم کے بیٹے اکبر کی وفات 2018 میں ہوئی ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، البتہ اس کی وفات کے وقت اس کی بیوی سمرین زندہ تھی، اور علی اکبر کے چھ چچا زاد بھائی ہیں۔
اس کے بعد قاسم کی بیٹی اکبری بیگم کی وفات 2019 میں ہوئی، ان کی وفات کے وقت شوہر، پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ اس کے بعد قاسم کی دوسری بیٹی حنیفہ بیگم کی وفات 2021 میں ہوئی، حنفیہ بیگم کے شوہر ان سے پہلے انتقال کرچکے تھے اور ان کی کوئی اولاد بھی نہیں ہے، ان کی دو بہنیں اور چچا زاد بھائی ہیں۔
اس کے بعد مرحوم بیٹے (اکبر) کی بیوی سمرین کی وفات 2023 میں ہوئی، سمرین کے والدین، ایک بھائی، تین بہنیں حیات ہیں۔ براہ کرم ان مرحومین کی میراث کی تقسیم فرمادیں۔ نیز اکبر اور حنفیہ بیگم نے ایک ایک بچی گود لی ہوئی تھی، کیا ان کو بھی میراث میں حصہ ملے گا؟ بارک اللہ فیکم
جواب: مرحومین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو تین ہزار چار سو چھپن (3456) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے اختری بیگم کو نو سو ساٹھ (960) حصے، خاتون بیگم کو نو سو ساٹھ (960) حصے، خورشیدی کے بیٹے کو دو سو سولہ (216) حصے، چھ چچا زاد بھائیوں میں سے ہر ایک کو پچپن (55) حصے، اکبری بیگم کے شوہر کو ایک سو اسی (180) حصے، اکبری بیگم کے پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو نوے (90) حصے، دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو پینتالیس (45) حصے، سمرین کے والد کو دو سو پچیس (225) حصے اور سمرین کی والدہ کو پینتالیس (45) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو اختری بیگم کو %27.77 فیصد، خاتون بیگم کو %27.77 فیصد، خورشیدی کے بیٹے کو %6.25 فیصد، چھ چچا زاد بھائیوں میں سے ہر ایک کو %1.591 فیصد، اکبری بیگم کے شوہر کو %5.20 فیصد، پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو %2.60 فیصد، دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو %1.30 فیصد، سمرین کے والد کو %6.51 فیصد اور سمرین کی والدہ کو %1.30 فیصد حصہ ملے گا۔
نوٹ نمبر: (1) واضح رہے کہ لے پالک حقیقی اولاد کے حکم میں نہیں ہوتا ہے، لہذا جس شخص نے اس کو گود لیا ہے، اس کے ترکہ میں اس لے پالک کا کوئی حق و حصہ متعین نہیں ہے، ہاں ! البتہ پالنے والا اپنی زندگی میں بطورِ ہدیہ (Gift) اسے کوئی چیز دے کر اسے مالک بنا سکتا ہے اور اسی طرح اس کے حق میں ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت بھی کر سکتا ہے۔
نوٹ نمبر: (2) یہ میراث کی تقسیم اس وقت ہے، جب ورثاء وہی ہوں جو سوال میں مذکور ہیں، لیکن اگر ورثاء میں کچھ تبدیلی ہو تو پھر یہ تقسیم نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
التفسیر المظھری: (284/7)
فلا یثبت بالتبنی شئی من الاحکام البنوة من الارث وحرمة النکاح وغیر ذلك.
الدر المختار: (801/6، ط: دار الفکر)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية) ...الخ
المبسوط للسرخسی: (55/30، ط: دار المعرفة)
وإذا مات الرجل ولم تقسم تركته بين ورثته حتى مات بعض ورثته فالحال لا يخلو إما أن يكون ورثة الميت الثاني ورثة الميت الأول فقط أو يكون في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول۔۔۔۔۔وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت فإنه تقسم تركة الميت الأول أولا لتبين نصيب الثاني، ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی