resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: قرضہ واپس ملنے پر زکوٰة کا حکم(1137-No)

سوال: ایسا قرضہ جس کے ملنے کی امید بالکل ختم ہو گئی ہو، تو اس کی زکوة کس طرح ادا کرینگے؟

جواب: واضح رہے کہ جس قرضے کی وصولیابی کی امید بالکل ختم ہو گئی ہو (جس کو عرف عام میں Dead amount کہا جاتا ہے) اس رقم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ البتہ کبھی آئندہ وہ رقم وصول ہو جائے، تو صرف اس سال کی زکوٰة دینی ہو گی جس سال وہ رقم ملی ہے۔
ہاں ! اگر وصولیابی میں بالکل مایوسی نہ ہوئی ہو، بلکہ دونوں احتمالات ہوں کہ ملے یا نہ ملے، تو اس کی زکوٰة رقم کے وصول ہونے تک مؤخر کر سکتے ہیں اور اس صورت میں پچھلے سالوں کی زکوٰة بھی ادا کرنی ہوگی۔
اس صورت میں جتنی رقم وصول ہو جائے، تو اولاً اس سال کی زکوٰة ادا کی جائے اور پھر بقیہ رقم میں سے سابقہ سالوں کی زکوٰة ادا کی جائے۔
فرض کریں کہ دس لاکھ قرض کی رقم میں سے ایک لاکھ روپے وصول ہو گئے، تو پہلے اس میں سے اس حالیہ سال کی زکوٰة ٢۵۰۰ روپے ادا جائے گی، پھر بقیہ ٩٧۵۰۰ روپے میں سے ٢۴٣٧.۵ روپے گذشتہ سال کی زکوٰة ادا کئے جائیں گے، پھر اس کے بعد بقیہ رقم میں سے گزشتہ سالوں کی زکوٰة ڈھائی فیصد کے اعتبار سے ادا کی جائے گی، یہاں تک کہ تمام سال مکمل ہو جائیں۔
آئندہ جب بھی قرض کی جتنی قسطیں وصول ہوں، تو مذکورہ بالا طریقے سے زکوٰة ادا کرتے رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تبیین الحقائق: (255/1، ط: المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ)
يشترط لوجوب الزكاة أن يكون ناميا حقيقة بالتوالد والتناسل وبالتجارات أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو يد نائبه لما ذكرنا أن السبب هو المال النامي فلا بد منه تحقيقا أو تقديرا فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه لفقد شرطه وذلك مثل مال الضمار كالآبق والمفقود۔۔۔۔۔والدين المجحود إذا لم يكن عليه بينة ثم صارت له بعد سنين بأن أقر عند الناس، وإن كان المودع من معارفه تجب عليه زكاة الماضي إذا تذكر۔۔۔۔۔وقال الحسن بن زياد: لا تجب إذا كان الغريم فقيرا؛ لأنه لا ينتفع به، وكذا قال محمد: إذا كان مفلسا بناء على تحقق الإفلاس بالتفليس عنده وأبو يوسف معه فيه

البحر الرائق: (222/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وفي الشرع هو نوعان حقيقي وتقديري فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو في يد نائبه فلا زكاة على من لم يتمكن منها في ماله كمال الضمار، وهو في اللغة الغائب الذي لا يرجى فإذا رجي فليس بضمار، وأصله الإضمار، وهو التغييب والإخفاء۔۔۔۔۔۔ومال الضمار هو الدين المجحود۔۔۔۔ولو كان على مقر مفلس فهو نصاب عند أبي حنيفة؛ لأن تفليس القاضي لا يصح عنده، وعند محمد لا يجب لتحقق الإفلاس عنده بالتفليس وأبو يوسف مع محمد في تحقق الإفلاس، ومع أبي حنيفة في حكم الزكاة رعاية لجانب الفقراء كذا في الهداية فأفاد أنه إذا قبض الدين زكاه لما مضى

فتاویٰ عثمانی: (76/2م ط: معارف القرآن)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Qarz Wapis milnay per zakat ka hukum, Ruling on Zakat on repayment / receiving back of loan

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat